18ویں ترمیم سے صوبائی حکومتوں کی مالی ڈکٹیٹر شپ قائم ہوئی: عوامی تحریک
صوبوں نے مرکز سے اختیارات اور وسائل لیے مگر اضلاع، تحصیلوں اور یوسی کو نہیں دیئے
18ویں ترمیم سے عوام کی حالت نہیں بدلی، کرپشن کا گراف بڑھا، مرکزی سیکرٹری اطلاعات
گریٹ ڈیبیٹ کی ضرورت ہے، مرکز، صوبہ محاذ آرائی سے مرکز گریز قوتیں فائدہ اٹھائیں گی
اختیارات اور وسائل کی مرکزیت کے خاتمے سے مراد عام آدمی کی حالت زار میں بہتری لانا ہے
لاہور (18 جنوری 2019) پاکستان عوامی تحریک کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات نوراللہ صدیقی نے کہا ہے کہ اختیارات اور وسائل کی مرکزیت کے خاتمے سے مراد عام آدمی کی حالت زار میں بہتری لانا ہے۔ 18ویں ترمیم پر گریٹ ڈیبیٹ کی ضرورت ہے ورنہ مرکز گریز قوتیں اس سے فائدہ اٹھائیں گی۔ 18ویں ترمیم سے صوبوں کی مالی ڈکٹیٹر شپ قائم ہوئی، عام آدمی کو اس کا فی الوقت کوئی فائدہ نہیں پہنچا۔
انہوں نے مرکزی سیکرٹریٹ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان عوامی تحریک اختیارات، وسائل کی تقسیم اور انتظامی بنیادوں پر نئے صوبے بنانے کی پرزور حامی ہے مگر مرکز کو کمزور کر کے صوبائی ڈکٹیٹر شپ قائم کرنا ایک نیا فتنہ ہے۔ این ایف سی کی طرح پی ایف سی کا اجراء نہیں ہوا، انہوں نے کہا کہ یہ ایک افسوسناک حقیقت ہے کہ 18ویں ترمیم کے بعد صوبوں کو بے تحاشا مالی وسائل منتقل ہوئے مگر یہ وسائل پولیٹیکل ایلیٹ کی جیبوں میں گئے اور کرپشن بڑھی۔ انہوں نے کہا کہ انکم ٹیکس اور ایگری کلچر انکم ٹیکس اکٹھا اور استعمال کرنے کا اختیار مرکز کے پاس ہونا چاہیے۔ ٹیکسیشن کے نظام میں مرکز کو محدود کرنے سے اس کا قرضوں پر انحصار بڑھا۔ انہوں نے کہا کہ صوبوں نے مرکز سے اختیارات اور وسائل تو لیے مگر اسی اصول کے تحت یہ وسائل اور اختیار اضلاع، تحصیلوں اور یونین کونسلوں کو نہیں ملے۔ اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ 18ترمیم سے ایڈمنسٹریٹو عدم توازن قائم ہوا ہے اور تعلیم، صحت کے شعبے صوبوں کو ملنے سے ان کی حالت زار میں پہلے سے زیادہ بگاڑ آیا، شرح خواندگی میں اضافہ کی بجائے کمی کی رپورٹس آرہی ہیں، اسی طرح ہسپتال بھی علاج کی بجائے مریضوں کی تذلیل کا ذریعہ بنے ہوئے ہیں، اب تو ہسپتالوں کی دوائیاں ٹرکوں پر لاد کر چوری کرنے کی خبریں بھی چھپ رہی ہیں۔ صوبوں نے 18ویں ترمیم کے بعد مرکز سے منتقل ہونے والے وسائل تو سنبھالے مگر ذمہ داریاں پوری نہیں کرسکے۔
تبصرہ