ملزم کو بار بار ڈکٹیشن دینے پر عوامی تحریک کے وکلاء کا احتجاج، اے ٹی سی جج کی تنبیہ
سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس:انسداد دہشتگردی عدالت میں ایس ایس پی ڈسپلن طارق عزیز پر جرح
آپریشن سے قبل خرم نواز گنڈاپور نے بیریئر لگانے کا عدالتی آرڈر دکھایاتھا، طارق عزیز کا اعتراف
عوامی تحریک کے وکلاء نے طارق عزیز کی طرف سے پتھر اؤکی ویڈیو عدالت میں پیش کر دی
طارق عزیز کی طرف سے پولیس فائرنگ اور بیریئر کی حفاظت کیلئے پولیس تعینات کرنیکا اعتراف
طارق عزیز کے حکم پر ان کے باڈی گارڈ نثار نے شازیہ مرتضیٰ کو فائرنگ کر کے قتل کیا: جواد حامد
لاہور (3 ستمبر 2018ء) انسداد دہشتگردی عدالت لاہور میں سانحہ ماڈل ٹاؤن استغاثہ کیس کے حوالے سے ایس ایس پی ڈسپلن لاہور طارق عزیز نے جرح کے دوران اعتراف کیا کہ 17 جون 2014 ء کے دن آپریشن سے قبل خرم نواز گنڈاپور نے عدالت کے حکم پر لگائے جانے والے حفاظتی بیریئرز سے متعلق لاہور ہائیکورٹ کا حکم نامہ دکھایا تھا، انہوں نے جرح کے دوران اس بات کا بھی اعتراف کیا کہ پولیس نے ماڈل ٹاؤن میں عوامی تحریک کے کارکنوں پر فائرنگ کی، عوامی تحریک کے وکلاء نے عدالت میں ایک ویڈیو بھی پیش کی جس میں طارق عزیز زمین سے پتھر اٹھارہے ہیں، ملزم طارق عزیز کو بار بار ڈکٹیشن دینے پر عوامی تحریک کے وکلاء نے شدید احتجاج کیا اور اسے قانون کے خلاف قرار دیا، اے ٹی سی جج نے بھی بار بار مداخلت پر سخت نوٹس لیا اور ملزمان کے وکلاء کو مداخلت سے روکا،ملزمان کے وکلاء کی طرف سے مداخلت پر عدالتی کارروائی تعطل کا شکار ہوتی رہی جس پر عوامی تحریک کے وکیل رائے بشیر احمد ایڈووکیٹ نے احتجاجاً جرح روک دی اور ملزمان کے وکلاء کی مداخلت کو عدالتی اور قانونی روایات کے برخلاف رویہ قرار دیا، قومی الیکٹرانک میڈیا چینل کے ایک رپورٹر کا لائیو ویڈیو بیپربھی عدالت میں چلا کر سنایا گیا جس میں رپورٹر کہہ رہا ہے کہ پورے ڈویژن کی پولیس ماڈل ٹاؤن میں جمع کر لی گئی اور بیریئر ہٹانے کے اس آپریشن کو ڈاکٹر طاہرالقادری کی پاکستان آمد سے محض 5روز قبل شروع کیا گیا، یہ پولیس کا ایک روایتی اوچھا ہتھکنڈا ہے۔
عدالت میں مستغیث جواد حامد ، رائے بشیر احمد ایڈووکیٹ، بدرالزمان چٹھہ ایڈووکیٹ، نعیم الدین چودھری ایڈووکیٹ، شکیل ممکا ایڈووکیٹ و دیگر رہنما موجود تھے۔
مستغیث جواد حامد نے کہا کہ جب سانحہ ماڈل ٹاؤن ہوا تو اس وقت طارق عزیز ایس پی ماڈل ٹاؤن تھے، یہ سارا سانحہ ان کی مشاورت اور سرپرستی میں ہوا اور سانحہ ماڈل ٹاؤن کے بعد بطور انعام طارق عزیز کو ایس ایس پی ڈسپلن لاہور تعینات کیا گیا، انہوں نے کہاکہ جو شخص قانون اور ڈسپلن کی بدترین خلاف ورزی کا مرتکب ہو اور اسے 14 شہریوں کے قتل عام اور سینکڑوں کو بدترین تشدد کا نشانہ بنانے کے جرم میں انسداد دہشتگردی کی عدالت نے بطور ملزم طلب کررکھا ہو کیا اس شخص کو ڈسپلن جیسے انتہائی اہم اور حساس عہدے پر تعینات ہونا چاہیے؟ انہوں نے کہا کہ ایس پی طارق عزیز کے گن مین نثار نے طارق عزیز کے حکم پر شازیہ مرتضیٰ کو گولیاں مار کر قتل کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں بہت دکھ ہوتا ہے کہ سفاک قاتل ابھی تک اہم عہدوں پر براجمان ہیں اور وہ کسی نہ کسی شکل میں کیس پر اثرانداز ہورہے ہیں۔ ہمارے گواہوں کو بھی ہراساں کیا گیا جس کی تحریری درخواست ہم اے ٹی سی میں بھی دے چکے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہمارا مطالبہ ہے کہ کیس کے فیصلے تک انسداد دہشتگردی عدالت کی طرف سے طلب کیے گئے تمام پولیس ملزمان جو اہم عہدوں پر براجمان ہیں انہیں عہدوں سے ہٹایا جائے۔
تبصرہ