ہارنے والوں نے الیکشن کمیشن کی ہر اینٹ ہاتھوں سے لگائی، اب گلہ کیوں؟: ڈاکٹر طاہرالقادری
2013ء میں قابل اعتبار الیکشن کمیشن اور جامع انتخابی اصلاحات کیلئے لانگ مارچ کیا تھا، سربراہ عوامی تحریک
لانگ مارچ کے دوران دھاندلی سے پاک الیکشن کیلئے ڈاکومنٹ دیا تھا جس کی تائید کی گئی مگر عمل نہ ہوا، گفتگو
2002ء سے پہلے اور بعد میں ہونے والے ہر الیکشن پر ہارنے والوں نے دھاندلی کے الزام لگائے
لاہور (8 اگست 2018ء) پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے کہا ہے کہ دھاندلی کا دروازہ ہمیشہ کیلئے بند اورقابل اعتبار الیکشن کمیشن کی تشکیل کیلئے جنوری 2013 ء میں لاکھوں عوام کے ہمراہ لاہور سے اسلام آباد لانگ مارچ کیا تھا، لانگ مارچ کی اہمیت تسلیم کرنے کے باوجود اس آئینی، عوامی ایشو کو نظر انداز کیا گیا، 2018 ء کے انتخابات اسی الیکشن کمیشن نے کروائے جس کی عمارت کی ہر اینٹ ہارنے والوں نے اپنے ہاتھوں سے لگائی تھی، اب گلہ شکوہ کس بات کا؟ وہ سویڈن (مالمو) پہنچنے پر ایئرپورٹ پر پارٹی رہنماؤں، عہدیداروں کے ہمراہ گفتگو کررہے تھے۔
ڈاکٹر طاہرالقادری نے کہا کہ 2002ء سے پہلے اور بعد میں ہونے والے ہر الیکشن کو دھاندلی زدہ قرار دیا گیا اور ہارنے والوں نے الیکشن کمیشن کے نقائص بیان کیے مگر اعتراض کرنے والوں کو جب حکومت ملی تو انہوں نے اسی الیکشن کمیشن کو پاک صاف قرار دے کر نقائص دور کرنے کی بجائے سرپرستی کی۔ انہوں نے کہا کہ انتخابی اصلاحات کیلئے تمام جماعتوں کے نمائندوں پر مشتمل پارلیمانی کمیٹی انتخابی اصلاحات کیلئے دو سال سر جوڑکر بیٹھی رہی اور اس پارلیمانی کمیٹی میں اکثریت ان جماعتوں کے نمائندوں کی تھی جو آج کل الیکشن کمیشن کے باہر سراپا احتجاج ہیں۔
انہوں نے کہا کہ انتخابی اصلاحاتی کمیٹی عقیدہ ختم نبوت کے خلاف کام کر سکتی تھی تو الیکشن کمیشن کو بااختیار بنانے کیلئے ضروری قانون سازی اور اقدامات کیوں نہ کر سکی؟ ڈاکٹر طاہرالقادری نے کہا کہ الیکشن سے پہلے قومی خزانے کے اربوں روپے کے فنڈز ریوڑیوں کی طرح بانٹے گئے، مرضی کی حلقہ بندیاں کروائی گئیں، کاغذات نامزدگی سے ایمانداری کا تقاضا کرنے والی شقیں بھی نکلوائی گئیں، آئین کے آرٹیکل 63,62 کو ’’انتھیسزیا‘‘ دے کر عضو معطل بنایا گیا، مطلوبہ نتائج کیلئے جملہ بندوبست کیے گئے پھر بھی نتیجہ مرضی نہیں آیا نہیں تو پھر آہ و بکاہ کیوں؟
انہوں نے کہا کہ ہمارا الیکشن کی شفافیت اور عدم شفافیت سے کچھ لینا دینا نہیں، ہم تو اس پورے نظام کو باطل، کرپشن اور دھاندلی زدہ قرار دیتے ہیں جب تک آئین کی روح کے مطابق الیکشن کمیشن اور اس کے ضوابط نہیں بنالیے جاتے اور جامع اصلاحات کے ذریعے گند صاف نہیں کر دیا جاتا تب تک دھاندلی کی الزام تراشی ہوتی رہے گی، ہارنے والا جیتنے والے کے مینڈیٹ کو تسلیم کرنے سے انکار کرتا رہے گا، ماضی کے حکمران اور نہ سہی تو کم از کم الیکشن کمیشن کا ایک ادارہ ہی اس قابل بناجاتے کہ آج انہیں مینڈیٹ چرائے جانے کا گلا نہ ہوتا۔
انہوں نے مزید کہا کہ 2013ء میں ہم نے انتخابی اصلاحات اور شفاف انتخابات کیلئے جو ڈاکومنٹ دیا تھا اور جس پر اس وقت کی تمام مقتدرپارلیمانی قوتوں کے سربراہوں نے دستخط کیے تھے آج بھی وہ ڈاکومنٹ انتخابی برائیوں کے سدباب کیلئے مفید اور معاون ہے۔
تبصرہ