سسٹم ایماندار نہ ہو تو کوئی نگران ایماندار کچھ نہیں کر سکتا: ڈاکٹر طاہرالقادری
انتخابی مقاصد کیلئے ترقیاتی منصوبے اور نوکریاں دی جارہی ہیں، ٹیلیفونک گفتگو
سربراہ عوامی تحریک ترکی پہنچ گئے، مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ کے مزار پر حاضری، 3 جون کی صبح وطن پہنچیں گے
لاہور (29 مئی 2018) پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کینیڈا سے ترکی پہنچ گئے ہیں۔ ڈاکٹر طاہرالقادری ترکی کے شہر قونیہ میں قیام پذیر ہیں جہاں انہوں نے مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ کے مزار پر حاضری دی۔ ڈاکٹر طاہرالقادری 3 جون کی صبح علامہ اقبال انٹرنیشنل ایئرپورٹ لاہور اتریں گے جہاں کارکنان ان کا ایئرپورٹ پر استقبال کریں گے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری ایئرپورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو بھی کریں گے۔ سربراہ عوامی تحریک شہر اعتکاف میں شرکت کریں گے، امسال شہر اعتکاف میں ان کے خطابات کا موضوع مثنوی مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ ہے۔ تحریک منہاج القرآن کی سپریم کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر حسن محی الدین، منہاج القرآن کے صدر ڈاکٹر حسین محی الدین، جنوبی پنجاب کے صدر فیاض وڑائچ سربراہ عوامی تحریک کے ہمراہ ہیں۔
دریں اثناء سربراہ عوامی تحریک نے ٹیلیفون پر سینئر رہنماؤں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جب تک موجودہ نظام ہے اس وقت تک سو فیصد فیئر اینڈ فری الیکشن کی توقع نہیں کی جاسکتی، ایک ایماندار نگران وزیراعظم اور چار ایماندار نگران وزرائے اعلیٰ اس وقت تک کچھ نہیں کر سکیں گے جب تک سسٹم کو شفاف نہیں بنایا جاتا۔ جب سسٹم ہی ایماندار نہ ہو تو وہاں نگران ایماندار کیا کر سکتے ہیں۔ ماضی میں جتنے بھی نگران وزرائے اعظم آئے ان کی اہلیت پر اور ان کی ایمانداری پر کوئی سوال نہیں اٹھا تھا لیکن فیئر اینڈ فری الیکشن کا تحفہ قوم کو نہ مل سکا۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے کہا کہ پاکستان عوامی تحریک کا اول روز سے یہ موقف رہا ہے کہ الیکشن کمیشن سمیت پورے انتخابی نظام کی اصلاح کی جائے تاکہ مڈل کلاس کے پڑھے لکھے نوجوان پیسے کے عمل دخل کے بغیر بھی اسمبلیوں تک پہنچ سکیں۔ انہوں نے کہا کہ 2013 ء کے الیکشن سے قبل کہا تھا کہ اصلاحات کے بغیر شفاف انتخابات ناممکن ہیں اور پھر 2013ء کے انتخابات کو تمام سیاسی جماعتوں نے قبول کرنے سے انکار کیا اور انہیں آر اوز کا الیکشن کہا گیا۔ 2013ء اور 2018ء میں مجھے کوئی خاص فرق نظر نہیں آرہا، انہوں نے مزید کہا کہ موجودہ حکمرانوں کی رخصتی میں محض چند گھنٹے باقی ہیں لیکن وہ ابھی بھی اہم آئینی عہدوں پر پسند کی تقرریاں کررہے ہیں، اندر کھاتے منصوبہ جات کو فنڈنگ ہورہی ہے اور چھوٹے چھوٹے منصوبے جن کا تعلق آئندہ عام انتخابات سے ہے ان کے افتتاح بھی ہورہے ہیں، لوکل گورنمنٹ کے فنڈز بھی سیاسی مقاصد کیلئے استعمال ہورہے ہیں، نوکریاں بھی دی جارہی ہیں، اس ساری صورتحال کے تناظر میں یہ کیسے تصور کر لیا جائے کہ الیکشن کا پراسیس ہر قسم کی دھاندلی اور اثر و رسوخ سے پاک ہے۔
تبصرہ