سانحہ ماڈل ٹاؤن، فل بنچ کے روبرو نواز، شہباز کی طلبی کیلئے عوامی تحریک کے وکلاء کی بحث
شریف برادران نے دھمکی دی ڈاکٹر طاہرالقادری کو نہ روکا تو ہر تحریک کچل کر رکھ دیں گے
دھمکی خرم نواز گنڈا پور، فیاض وڑائچ، سید الطاف شاہ کو ایچ بلاک ماڈل ٹاؤن بلا کر دی گئی
مزید سماعت 23 مئی تک ملتوی، رائے بشیر، اظہر صدیق، لہراسب گوندل، نعیم الدین ایڈووکیٹ عدالت میں موجودہ تھے
لاہور (22 مئی 2018) سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس میں نواز شریف، شہباز شریف سمیت 12 افراد کی طلبی کیلئے لاہور ہائیکورٹ کے فل بنچ نے سماعت کی۔ بنچ کے سربراہ جسٹس قاسم محمد خان نے عوامی تحریک کے وکلاء سے دریافت کیا کہ آپ کن شواہد کی بنیاد پر طلبی چاہتے ہیں؟ عوامی تحریک کی طرف سے رائے بشیر احمد ایڈووکیٹ نے بحث کرتے ہوئے کہا کہ 15 جون 2014 مغرب کے بعدعوامی تحریک کے رہنماؤں خرم نواز گنڈاپور، چوہدری فیاض وڑائچ اور سید الطاف حسین شاہ کو ماڈل ٹاؤن ایچ بلاک بلا کر ڈاکٹر طاہرالقادری کی وطن واپسی کو ملتوی کروانے کا کہا گیا جو 23 جون کو پاکستان آ رہے تھے۔ ایچ بلاک ماڈل ٹاؤن میں نواز شریف، شہباز شریف، رانا ثناء اللہ، پرویز رشید، حمزہ شہباز، عابد شیر علی، خواجہ محمد آصف، خواجہ سعد رفیق اور چوہدری نثار موجود تھے۔ انہوں نے مختصر رسمی گفتگو کے بعد کہا کہ ڈاکٹر طاہرالقادری کی وطن واپسی کو ہر حال میں رکوائیں، جس پر خرم نواز گنڈاپور نے کہا کہ ڈاکٹر طاہرالقادری کی پاکستان آمد کا حتمی فیصلہ ہو چکا ہے جس پر نواز شریف، شہباز شریف اور حمزہ شہباز طیش میں آ گئے اور کہا کہ اگر انہیں نہ روکا گیا ہم انکی ہر تحریک کو کچل کر رکھ دینگے۔
رائے بشیر احمد ایڈووکیٹ نے دلائل دیتے ہوئے کہاکہ سانحہ ماڈل ٹاؤن سے قبل کے لیگی وزراء کے بیانات، سانحہ کے دن شریف برادران کا کردار اور سانحہ کے بعد کے واقعات ثابت کرتے ہیں کہ شریف برادران کا سانحہ ماڈل ٹاؤن سے براہ راست تعلق تھا۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر طاہرالقادری کی طرف سے نواز شریف کے ماورائے آئین اقدامات پر تحریک چلانے کا اعلان کیا گیا جس کے ردعمل میں سانحہ ماڈل ٹاؤن کا قتل عام ہوا، واقعہ کا تعلق بیرئیر سے نہیں شریف برادران سے ہے کیونکہ انہیں ڈاکٹر طاہرالقادری کی تحریک سے خطرہ تھا۔ اس موقع پر فل بنچ کے روبرو عوامی تحریک کے وکلاء نے راناثناء اللہ، سعد رفیق اور دیگر کی طرف سے دھمکی آمیز بیانات پر مشتمل اخباری تراشے بھی پیش کئے۔ رائے بشیر احمدایڈووکیٹ نے کہا کہ 17 جون 2014 کے دن پولیس نے اس وقت تک فائرنگ نہیں کی جب تک مشتاق سکھیرا نے بطور آئی جی چارج نہیں سنبھال لیا تھا۔ جیسے ہی آئی جی دس بجے لاہور پہنچے پولیس نے فائرنگ شروع کر دی، فائرنگ کا حکم آئی جی نے دیا، مشتاق سکھیرا کو سانحہ ماڈل ٹاؤن کی وجہ سے وفاق میں محتسب کی اہم تقرری ملی، سانحہ ماڈل ٹاؤن میں ملوث تمام افسران اور اہلکاروں کو ترقیاں ملیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ شہباز شریف کی خواہش کے مطابق پولیس نے کردار ادا کیا۔
رائے بشیر احمد ایڈووکیٹ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ جس جگہ حضرت امام حسین علیہ السلام کو شہید کیا گیا اس جگہ یزید موقع پر موجود نہیں تھا لیکن اسکے اہل بیت کے قاتل ہونے پر اجماع امت ہے۔ یزید کو اس لئے قاتل کہا جاتا ہے کہ اس کے عہد میں واقعہ کربلا ہوا اور اگروہ ملوث نہ ہوتا تو ذمہ داروں کو عبرت ناک سزائیں دیتا لیکن اس نے ذمہ داروں کو مراعات دیں جس سے اس کا قاتل ہونا ثابت ہوتا ہے۔ شریف برادران سانحہ میں ملوث نہ ہوتے تو وہ قتل و غارت گری میں ملوث پولیس افسران کو سزائیں دیتے مگر شہباز شریف نے تمام پولیس افسران کو ترقیوں سے نوازا بلکہ یہاں تک کہ ان اہلکاروں کو بھی جیلوں سے نکلوا کر انکی مرضی کی پوسٹنگز دیں جنہیں پولیس کی جے آئی ٹی نے فائرنگ کا ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔ رائے بشیر احمد ایڈووکیٹ نے کہا کہ ڈاکٹر طاہرالقادری کے طیارے کا رخ بھی وفاقی حکومت کے ایما پر اسلام آباد سے لاہور کی طرف موڑا گیا۔
عدالت میں اظہر صدیق ایڈووکیٹ، لہراسب گوندل ایڈووکیٹ، بد رالزمان چٹھہ، جواد حامد، نعیم الدین چوہدری ایڈووکیٹ، چوہدری غضنفر حسین ایڈووکیٹ، اشتیاق چوہدری ایڈووکیٹ، محمد یاسر ملک ایڈووکیٹ موجود تھے۔ 22مئی کی کارروائی میں کمرہ عدالت میں عوامی تحریک کے سیکرٹری جنرل خرم نواز گنڈا پور، نور اللہ صدیقی، حفیظ چوہدری و دیگر رہنماء موجود تھے۔ مزید سماعت آج 23 مئی کو ہو گی۔
تبصرہ