سانحہ ماڈل ٹاؤن، چیف جسٹس کا نوٹس، رنگ لائے گا شہیدوں کا لہو ایک دن
8 اپریل 2018 کو شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثا نے سپریم کورٹ لاہور رجسٹری کے باہر چیف جسٹس، جسٹس ثاقب نثار سے اپیل کی کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کو 4 سال ہوگئے انصاف نہیں ملا، ہمیں انصاف دلایا جائے۔ چیف جسٹس نے کتبے ہاتھ میں لئے خاموش کھڑے شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثا کے بچوں اور بچیوں کو ایک نظر دیکھا اور اپنے دفتر چلے گئے۔ دفتر پہنچ کر انہوں نے ورثا کو اپنے دفتر بلایا، تنزیلہ امجد شہیدہ کی بیٹی بسمہ امجد نے چیف جسٹس سے ملاقات کی اور ان سے انتہائی معصومیت سے سوال کیا کہ میری والدہ کو کس جرم کی پاداش میں شہید کیا گیا اور ہمیں انصاف کیوں نہیں مل رہا؟ چیف جسٹس صاحب! ہم اپنی والدہ کے بغیر جس طرح وقت گزار رہے ہیں، یہ صرف ہم جانتے ہیں، آپ پاکستان کے سب سے بڑے منصف ہیں، آپ ہمیں انصاف دلوائیں۔ اس پر چیف جسٹس نے کھڑے ہو کر بسمہ کے سر پر ہاتھ رکھا اور کہا کہ انصاف کی اس کرسی کو کوئی نہیں ڈرا سکتا اور نہ ہی اثر انداز ہو سکتا ہے۔ میں بھی قانون کا پابند ہوں اور قانون کے مطابق آپ کو انصاف دلواؤں گا اور آپ کو انصاف ملے گا۔ آپ اپنی والدہ کے لیے دعا کریں اور ان کا جو خواب آپ کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے تھا، آپ اس پربھرپور توجہ دیں اور پھر چیف جسٹس آف سپریم کورٹ نے انصاف میں تاخیر کی وجوہات جاننے کے لیے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو نوٹس بھیجنے کا حکم دیا۔
14 اپریل کو چیف جسٹس آف سپریم کورٹ کو ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے رپورٹ دی جس پر چیف جسٹس نے حکم دیا کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس کی روزانہ کی بنیاد پر سماعت کی جائے اور ATC جج کے پاس جو مقدمات ہیں اس کیس کے فیصلہ تک کسی اور عدالت کو ٹرانسفر کر دیئے جائیں۔ انہوں نے مزید احکامات دیتے ہوئے کہا کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس سے متعلق جو رٹ پٹیشنز لاہور ہائیکورٹ میں زیر سماعت ہیں، ان کی 19 اپریل سے سماعت کی جائے اور ایک ہفتے کے اندر یہ تمام رٹ پٹیشنز نمٹائی جائیں۔ انہوں نے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو جسٹس باقر نجفی کمیشن کی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کروانے کا حکم دیا۔ چیف جسٹس نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس کے حوالے سے جو احکامات دیئے، ان پر عمل درآمد ہوتا ہوا نظر آرہا ہے۔ امید ہے زیر نظر سطور کی اشاعت تک لاہور ہائیکورٹ میں نواز شریف، شہباز شریف، رانا ثناء اللہ سمیت ATC کی طرف سے طلب نہ کئے جانے والے ملزمان کے حوالے سے فیصلہ ہوچکا ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ سابق آئی جی پنجاب جنہیں ATC نے طلب کیا اور انہوں نے طلبی کے اس آرڈر کے خلاف لاہور ہائیکورٹ سے سٹے آرڈر لے رکھا ہے، اس پر بھی فیصلہ ہوجائے گا۔
دوسری طرف چیف جسٹس کے نوٹس کے بعد ATC میں بھی کیس کی سماعت کے حوالے سے تیزی دیکھنے میں آئی اور کیس روزانہ کی بنیاد پر زیر سماعت ہے۔ ٹرائل کا باضابطہ آغاز 16اپریل سے ہوچکا ہے۔ اس ضمن میں مستغیث جواد حامد کی اہم اور طویل ترین شہادت قلمبند ہو چکی ہے، اس کے ساتھ ساتھ مزید گواہان بھی شہادتیں قلمبند کرواچکے ہیں۔ جواد حامد نے اپنی شہادت قلمبند کرواتے ہوئے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے حوالے سے بنیادی حقائق ATC کے سامنے رکھتے ہوئے کہا کہ2010ء میں ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے دہشتگردی کے خلاف عالمی اہمیت کا فتویٰ جاری کیا جس پر دہشتگرد گروپوں کی طرف سے قائدِ تحریک کو جان سے مارنے کی دھمکیاں دی گئیں، اس پر ملکی ایجنسیز نے ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کو دہشتگردوں کے مذموم عزائم کے بارے میں تحریری طور پر آگاہ کیا۔ ان دھمکیوں کا علم جب ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے ہمسایوں اور سیکرٹریٹ کو ہوا تو ماڈل ٹاؤن ایم بلاک کے رہائشیوں نے لاہور ہائیکورٹ میں رٹ دائر کی کہ ان دھمکیوں کے تناظر میں انہیں تحفظ دیا جائے۔ لاہور ہائیکورٹ نے ان رٹ پٹیشنزپر پولیس حکام کو طلب کیا اور تحفظ دینے کی ہدایات دیں جس پر 19 مئی 2011ء کو ایس پی آپریشن ماڈل ٹاؤن نے عدالت کو یقین دلایا کہ ایک ماہ کے اندرڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی رہائش گاہ، منہاج القرآن سیکرٹریٹ اور یہاںکے رہائشیوں کو فول پروف سکیورٹی فراہم کر دی جائے گی اور مقررہ میعاد کے اندر پولیس نے بمبو بیریئرز نصب کروا دئیے اور 24 گھنٹے کیلئے 16 پولیس گارڈ بھی فراہم کر دئیے۔
جواد حامد نے اپنی شہادت قلمبند کرواتے ہوئے کہا کہ 12 اپریل 2014ء کو ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے ویڈیو لنک کے ذریعے کینیڈا سے پاکستان میں پریس کانفرنس کی اور حکومت کے ماورائے آئین و قانون اقدامات اور عوام کے استحصال کیخلاف احتجاج کے آئینی حق کو استعمال کرنے کا اعلان کیا جس کی کوریج تمام قومی اخبارات و الیکٹرانک میڈیا پر جاری ہوئی۔ مئی 2014ء کے آخری ہفتے میں ڈاکٹر محمدطاہرالقادری کینیڈا سے لندن آئے، مورخہ 29 اور 30 مئی 2014ء کو چودھری شجاعت حسین، چودھری پرویز الٰہی اور ق لیگ کے دیگر مرکزی قائدین سے ملاقات کی اور 10 نکاتی عوام دوست انقلابی ایجنڈے کا اعلان کیا گیا۔ اس دوران ڈاکٹر طاہرالقادری اور عمران خان کی خفیہ ملاقات کی خبریں بھی میڈیا پر پھیلائی گئیں جس سے حکومت نے از خودتصور کر لیا کہ ان کے خلاف کوئی بڑا الائنس بننے جارہا ہے۔ شریف برادران نے حتی المقدور کوشش کی کہ ڈاکٹر محمدطاہرالقادری پاکستان نہ آئیں مگر ان کی تمام دھمکیاں بے کار گئیں، ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے پاکستان آنے کی تاریخ دے دی تو حواس باختہ حکمرانوں نے17 جون 2014ء کا سانحہ برپا کر دیا۔ 100 لوگوں کو گولیاں ماریں، 14 کو شہید کر دیا۔ لہذا اس امر میں ذرہ بھر بھی شائبہ نہیں کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن سو فیصد منصوبہ بندی کا شاخسانہ ہے۔ حکمرانوں کی یہ حکمت عملی تھی کہ ڈاکٹر طاہرالقادری کی وطن واپسی کو روکنے کے لیے لاشیں گرائی جائیں اور خوف و ہراس پھیلایا جائے۔ جواد حامد نے شہادت قلمبند کرواتے ہوئے کہا کہ بیرئر عدالت کے حکم پر لگے اور قانونی تھے جبکہ ان کو ہٹانے کا پولیس ایکشن غیر قانونی تھا۔ جواد حامد نے 16 جون 2014ء کی میٹنگ کا حوالہ بھی دیا کہ جس میں سانحہ ماڈل ٹاؤن کے خونی آپریشن کی منصوبہ بندی کی گئی۔ انہوں نے بتایا کہ اس میٹنگ کی صدارت صوبائی وزیر قانون پنجاب نے کی۔ ATC جج نے جواد حامد کی شہادت کو انتہائی توجہ سے سنا۔ اس دوران ملزمان کے وکلاء عدالتی کارروائی پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرتے رہے مگر ان کی کوئی دال نہ گل سکی۔
الحمد للہ قائد انقلاب ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے شہدائے ماڈل ٹاؤن کے انصاف کے لیے قانونی چارہ جوئی پر فوکس کرنے کا جو اعلان کیا تھا، ان کی یہ حکمت عملی ثمر بار ہو رہی ہے اور حصولِ انصاف کی قانونی جدوجہد اپنے منطقی انجام کی طرف رواں دواں ہے۔ تاہم اصل سوال سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ماسٹر مائنڈز کو سزائیں دلوانے کا ہے۔ جنہوں نے سانحہ ماڈل ٹاؤن میں خون کی ہولی کھیلی انہیں تو طلب کر لیا گیا مگر جنہوں نے حکم دیا انہیں انجام تک پہنچانا سب سے بڑی آزمائش ہے۔ یہاں پر شہدائے ماڈل ٹاؤن کے پر عزم ورثا اور گواہان کو خصوصی طور پر مبارکباد پیش کی جاتی ہے کہ جن کی ثابت قدمی، مستقل مزاجی، مشن اور شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری سے محبت کے عملی مظاہرے کے باعث سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس زندہ رہا۔ قاتل حکمرانوں نے ورثا کو بھاری رقوم کی پیشکشیں کیں، ہر طرح کے لالچ دیئے، انہیں ڈرا دھمکا کر کیس داخل دفتر کرنے کی کوشش کی مگر وہ اپنے مذموم ارادوں میں ناکام رہے۔ ان شاء اللہ تعالی شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثا اور گواہان کی ثابت قدمی سانحہ کے قاتلوں کو ان کے عبرت ناک انجام تک پہنچائے گی۔
ماخوذ از ماہنامہ منہاج القرآن، مئی 2018
تبصرہ