سانحہ ماڈل ٹاؤن: پولیس قتل عام کی نیت سے ڈاکٹر طاہرالقادری کی رہائش گاہ آئی
مستغیث جواد حامد پر پولیس ملزمان کے وکلاء کی جرح تیسرے روز بھی جاری رہی
پولیس نے عدالتی حکم پر حفاظتی بیریئر لگائے، انہیں ہٹانے کیلئے آپریشن ایک بہانہ تھا: جواد حامد
17 جون سے پہلے اور بعد کے واقعات ثابت کرتے ہیں پولیس قتل عام کیلئے آئی تھی، وکلاء عوامی تحریک
لاہور (3 مئی 2018) سانحہ ماڈل ٹاؤن استغاثہ کیس کے مدعی اور ادارہ منہاج القرآن کے ایڈمنسٹریٹر جواد حامد کی ’’چیف سٹیٹمنٹ‘‘ پر پولیس ملزمان کے وکلاء کی طرف سے انسداد دہشتگردی کی عدالت میں تیسرے روز بھی جرح جاری رہی، جواد حامد نے جرح کے دوران مختلف سوالات کا جواب دیتے ہوئے واضح کیا کہ 17 جون 2014 ء کے دن پولیس قتل عام کی نیت سے ڈاکٹر طاہرالقادری کی رہائش گاہ آئی، بیریئر ہٹانے کا آپریشن محض ایک بہانہ تھا۔ ادارہ منہاج القرآن اور سربراہ پاکستان عوامی تحریک کی رہائش گاہ کے باہر حفاظتی بیریئر لاہور ہائیکورٹ کے تحریری حکم پر ماڈل ٹاؤن پولیس نے لگوائے، عدالت نے حکم بھی براہ راست پولیس کو دیا تھا اور اس پر عملدرآمد بھی پولیس نے کیا، عدالت کے حکم کی بجا آوری میں پولیس نے بیریئرز کی حفاظت کیلئے پولیس اہلکار تعینات کیے جو 17 جون 2014ء کے دن بھی ڈیوٹی پر تھے۔
جواد حامد نے جرح کے دوران بتایا اہل محلہ نے عدالت میں رٹ پٹیشن دائر کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا تھا کہ انسداد دہشتگردی کے حوالے سے فتویٰ جاری کرنے کے بعد ڈاکٹر طاہرالقادری کو دہشتگردوں کی طرف سے دھمکیاں مل رہی ہیں وہ ہمارے ہمسایے ہیں اور ہم بھی اس حوالے سے عدم تحفظ کا شکار ہیں، اہل محلہ کی درخواست پر عدالت نے پولیس کو حکم دیا تو پولیس نے حفاظتی انتظامات مکمل کرنے کے بعد باقاعدہ اس کی رپورٹ لاہور ہائیکورٹ میں پیش کی جس کے بعد یہ رٹ پٹیشن نمٹا دی گئی، جواد حامد نے جرح کے دوران کہا کہ پولیس نے قتل عام کرنا تھا جس کا پس منظر بیان کیا جا چکا ہے کہ ڈاکٹر طاہرالقادری کی وطن واپسی کو روکنا تھا اور عوامی تحریک کے کارکنوں کو ہراساں کرنا تھا جس کیلئے بیریئر ہٹانے کی آڑ میں خون کی ہولی کھیلی گئی، 100 لوگوں کو گولیاں ماری گئیں جن میں 14 جاں بحق ہو گئے۔
جرح کے دوران ایک سوال کے جواب پر جواد حامد نے کہا کہ یہ تاثر گمراہ کن ہے کہ عوامی تحریک کے کارکنوں نے رد عمل دیا، انہوں نے جرح کے دوران ایک سوال کے جواب میں کہا کہ سپریم کورٹ کا حال ہی میں بیریئر ہٹانے کا حکم آیا ہم نے وہ تحریری حکم ملتے ہی انتظامیہ سے تعاون کیا اور وہ تمام حفاظتی بیریئر ختم کر دئیے، یہی ہمارا سوال 16 جون 2014ء کی رات کو پولیس اور ڈسٹرکٹ انتظامیہ سے تھا کہ آپ ہمیں کسی ہائیر اتھارٹی کا حکم نامہ دکھا دیں اور ہم آپ کے ساتھ مل کر ان حفاظتی بیریئر کو ہٹا دیتے ہیں لیکن 16 جون 2014ء کی رات پولیس اور ڈسٹرکٹ ایڈمنسٹریشن کسی قسم کا حکم نامہ فراہم کرنے میں ناکام رہے جس سے ان کی بری نیت ہم پر واضح ہوئی کہ یہ بیریئر ہٹانے کا نہیں ڈاکٹر طاہرالقادری اور ان کے کارکنان کو ختم کرنے کا آپریشن ہے۔ جواد حامد نے کہا 17 جون سے پہلے کے حکومتی اقدامات، 17 جون والے دن کے غیر قانونی اقدامات اور سانحہ ماڈل ٹاؤن کے بعد رونما ہونے والے واقعات سے ثابت ہوتا ہے کہ پولیس قتل عام کیلئے آئی تھی اور اپنا کام مکمل کر کے واپس گئی۔ مزید سماعت 4 مئی کو ہو گی۔ جواد حامد پر مزید جرح ہو گی۔
تبصرہ