پاکستان کو بیل آؤٹ کرنے 17ویں بار بھی آئی ایم ایف آئے گا
منہاج یونیورسٹی کے زیراہتمام ’’پری بجٹ سیمینار‘‘ فنی تعلیم پر وسائل خرچ کرنیکا مطالبہ
جرمنی، جاپان، چین، کوریا میں ہنر مند افرادی قوت 78 فیصد سے زائد، پاکستان میں صرف 4 فیصد ہے
پری بجٹ سیمینار سے ڈاکٹر حسین محی الدین، ڈاکٹر فہیم، ڈاکٹر پرویز طاہر، سعید اے شیخ، خرم نواز گنڈاپور و دیگر کا خطاب
نوید چودھری، بیرسٹر عامر، میاں عمران مسعود کا خطاب، طلبہ و طالبات کی بڑی تعداد کی شرکت
حکمران عوام سے سچ نہیں بولتے، فرضی آمدن پر اخراجات کا گوشوارہ مرتب کیا جاتا ہے
لاہور (19 اپریل 2018) منہاج یونیورسٹی لاہورکے زیر اہتمام ’’پری بجٹ سیمینار‘‘ سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے کہا کہ آج قوموں کی خوشحالی کی ضمانت معدنی ذخائر نہیں اعلیٰ تعلیم، سائنس وٹیکنالوجی، ٹیکنیکل ایجوکیشن اور جدید تحقیق اور ہنر مند افرادی قوت ہے، قومی وسائل سڑکوں، پلوں، عمارات کی بجائے اعلیٰ تعلیم و تحقیق پر خرچ کرنے سے پاکستان سیاسی، سماجی، معاشی بحرانوں سے باہر نکلے گا، پاکستان میں ہنر مند افرادی قوت کی شرح 4 سے 6 فیصد کے درمیان ہے جبکہ جرمنی میں یہ شرح 78 فیصد، کوریا، ہنگری، فن لینڈ، چین اور جاپان میں 100 فیصد ہے، ترقی کرنیوالے ممالک میں یہ شرح 66 فیصد سے زیادہ ہے، پاکستان تعلیم پر 2.2 فیصد جبکہ فنی تعلیم پر فنڈز نہ ہونے کے برابر ہیں، پری بجٹ سیمینار کی صدارت منہاج یونیورسٹی لاہور کے بورڈ آف گورنر کے ڈپٹی چیئرمین ڈاکٹر حسین محی الدین نے کی۔ سیمینار سے سابق سیکرٹری فنانس پروفیسر ڈاکٹر وقار مسعود، معروف ماہر معاشیات ڈاکٹر پرویز طاہر، ڈاکٹر اسلم غوری، کرنل مبشر، سابق ڈپٹی چیئرمین ایف بی آر ڈاکٹر ندیم الحق، پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما نوید چوہدری، ماہر معاشیات ڈاکٹر فہیم، سعید اے شیخ، بیرسٹر عامر حسن، میاں عمران مسعود، آصف عقیل، مغیث شوکت نے خطاب کیا۔ سٹیج سیکرٹری کے فرائض میڈم ثمرین نے انجام دئیے۔
ڈاکٹر حسین محی الدین نے پری بجٹ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ تعلیمی ترقی کے لیے استاد پر انویسٹمنٹ کرنا ہوگی، تعلیم خوبصورت عمارات کی تعمیر سے نہیں اعلیٰ تعلیم یافتہ، تربیت یافتہ اساتذہ سے فروغ پائے گی، انہوں نے کہا کہ یہ بات لمحہ فکریہ ہے کہ اس وقت تک ہارورلڈ یونیورسٹی سے 151، کولمبیا یونیورسٹی سے 101، کمیبرج یونیورسٹی 94، شکاگو یونیورسٹی سے 89 پروفیسرز مختلف تحقیق کے باعث نوبل انعام یافتہ ہیں جبکہ اس حوالے سے پاکستان یاعالم اسلام میں مکمل بلیک آؤٹ نظر آتا ہے، لندن میں 1660ء میں رائل سوسائٹی قائم ہوئی اس سوسائٹی سے دنیا بھر میں سے آٹھ ہزار سے زائد پروفیسرز، سائنسدان وابستہ رہے، اسلامی دنیا میں سے صرف 4 اس کلب کے ممبر تھے، ڈاکٹر حسین محی الدین نے کہا کہ ’’ریسرچ اینڈ سکلڈ نالج بیسڈ اکانومی‘‘ کی داغ بیل نہ ڈالی گئی تو پاکستان معاشی، سماجی، سیاسی بحرانوں سے کبھی نہیں نکل سکے گا، انہوں نے کہا کہ یہ حقائق تکلیف دہ ہیں کہ ہائر ایجوکیشن کے بجٹ کے استعمال کی شرح 50 فیصد ہوتی ہے، 2008ء میں 1000 پروفیسرز کو پی ایچ ڈی کروانے کے لیے بیرون ملک بھجوانے کا انتظام کیا گیا تھا آج یہ شرح ڈبل ہونے کی بجائے 250 تک محدود ہوگئی، اعلیٰ تعلیم کو فروغ دینے کے لیے 10سال قبل جتنے بھی منصوبے بنے وہ سب ٹھپ ہوگئے اور اعلیٰ تعلیم کی ترقی کے منصوبے بیانات تک محدود رہ گئے، انہوں نے کہا کہ 63 فیصد ملکی آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے، فنی تعلیم کے فقدان کے باعث یہ نوجوان بوجھ بن گئے ہیں، پاکستان کے سب سے بڑے 10 کروڑ آبادی والے صوبہ پنجاب میں 11 تعلیمی بورڈ ہیں ان میں صرف ایک فنی تعلیمی بورڈ ہے، 17سے 23سال کی عمر کے نوجوانوں کی تعداد اڑھائی کروڑ ہے ان میں سے صرف 4 فیصد کالج جاتے ہیں بقیہ نوجوانوں کو ہم ہنر مند بنا کر پاکستان کی معاشی بنیادوں کو مستحکم کیوں نہیں کرتے؟ انہوں نے کہا کہ 2002ء میں سائنس وٹیکنالوجی کا بجٹ 6 ارب سے زائد تھا جو آج کم ہوتے ہوتے 2 ارب رہ گیا، یہ کوتاہی نہیں مجرمانہ سوچ ہے، 2002ء میں دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں کے کیمپس پاکستان میں کھولنے کا ایم او یو سائن ہوا تھا جس کی ایکنک نے منظوری بھی دی تھی اگر اس منصوبہ پر عملدرآمد ہو جاتا تو نوجوانوں کو گھر بیٹھے عالمی معیار کی ڈگریاں ملتی اور ہر سال 100 ارب روپے کی بچت ہوتی، ڈاکٹر حسین محی الدین نے تجویز دی کہ ترقیاتی بجٹ کے استعمال کی شرح 100 فیصد یقینی بنانے کے لیے محکموں کی استعداد کار کو بہتر بنانے پر توجہ دینا ہوگی انہوں نے تعلیم کے ترقیاتی بجٹ کے استعمال کی شرح بتاتے ہوئے کہا کہ رواں سال 31 مارچ تک سکول ایجوکیشن کا بجٹ 31 فیصد استعمال نہیں ہوسکا، ہائر ایجوکیشن کا بجٹ 40 فیصد استعمال نہیں ہوسکا، صحت کا بجٹ 63 فیصد استعمال نہیں ہوسکا، انہوں نے تجویز دی کہ انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے سکولوں میں فروغ امن نصاب پڑھایا جائے، نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد یقینی بنایا جائے اور اس ضمن میں نیکٹا کو مطلوبہ فنڈز اور افرادی قوت مہیا کی جائے۔ پری بجٹ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر پرویز طاہر نے کہا کہ حکومتیں حکومتی کاروبار چلانے اور حکومت کرنے کیلئے بجٹ بناتی اور قرضی لیتی ہیں، انہیں ترقیاتی امور اور دوررس پالیسیوں سے کچھ زیادہ غرض نہیں ہوتی، سی پیک اچھا منصوبہ ہے مگر اس کے مکمل ہونے کی رفتار بہت سست ہے۔
ڈاکٹر وقار مسعود نے کہا کہ 30 جون تک بجٹ دینے کی ضرورت نہیں تھی، نجانے موجودہ حکومت کسی دوسرے کا کام کرنے پر بضد کیوں ہے؟ اس کی گارنٹی نہیں کہ آئندہ حکومت ایمنسٹی سکیم کو قبول کرے؟ بجٹ خسارہ 8 فیصد سے زیادہ ہے۔
خرم نواز گنڈاپور نے کہا کہ سی پیک قرضوں پر بن رہا ہے، سب سے زیادہ فائدہ چین کو ہے، اگر مذاکرات کرنے والے محب وطن اور مخلص لوگ ہوتے تو چین اپنے پیسوں سے یہ سارا منصوبہ بناتا۔ انہوں نے تجویز دی معیشت کو ٹریک پر لانے کیلئے ماہرین پر مشتمل ٹاسک فورس بنائی جائے۔
ماہر معیشت مغیث شوکت نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بری معاشی کارکردگی کی وجہ سے آئی ایم ایف اور عالمی مالیاتی اداروں کے سخت تحفظات ہیں، اپنے وسائل پر انحصا کیا جائے۔
نوید چودھری نے کہا کہ ایمنسٹی سکیم لالی پاپ ہے، گردشی قرضوں کی ادائیگی کسی خاص کو کی جاتی ہے۔
بیرسٹر عامر حسن نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ریاست کو امیر کے ساتھ رعایت نہیں کرنی چاہیے، غریب ٹیکس دیتا ہے امیر اپنے حصے کا ٹیکس نہیں دیتا۔
ڈاکٹر سعید اے شیخ نے کہا کہ حکومت اور عوام کے درمیان عدم اعتماد ہے، حکمران اپنی عوام سے سچ نہیں بولتے اس لیے ان کا اعتبار ختم ہو گیا، پالیسیوں میں عدم تسلسل ہے، ترجیحات کا ازسرنوتعین کیا جائے، پہلے 16 دفعہ آئی ایم ایف نے دم توڑتی معیشت کو حالت نزع سے نکالا جلد 17 ویں بار بھی آئی ایم ایف ہی مدد کو آئے گا۔
ڈاکٹر ندیم الحق نے کہا کہ بجٹ کو پارلیمنٹرین ڈسکس نہیں کرتے، یہ غیر سنجیدہ رویہ ہے، امریکہ میں پورا سال بجٹ پر بحث ہوتی ہے۔ یہاں چند گھنٹوں میں بجٹ پاس کر دیا جاتا ہے، ہر ادارہ خسارے میں ہے۔ وسائل نہ ہونے کے برابر، اخراجات بے تحاشا ہیں۔
اس موقع پر خرم شہزاد، میڈم رابعہ علی، طاہر شکیل، میڈم روبینہ، ڈاکٹر مختار عزمی، کرنل محمد احمد، سہیل احمد رضا، شہزاد رسول موجود تھے۔
تبصرہ