سانحہ ماڈل ٹاؤن استغاثہ کیس: انصاف بشکلِ قصاص، قانونی جنگ جاری
17 جون کا لہو رنگ دن تا قیامت پاکستان کے عوام بالخصوص تحریک منہاج القرآن اور عوامی تحریک کے کارکنان کو یاد رہے گا۔ اس دن عوام کے جان و مال کی حفاظت کی ذمہ دار ریاست نے2خواتین سمیت تحریک کے 14 کارکنان کو شہید اور 100 کارکنان کو شدید زخمی کرتے ہوئے انہیں خون میں نہلا یا۔ ریاست کے شہریوں کے خون پسینے کی کمائی سے ٹیکس وصول کر کے شہریوں کی حفاظت کیلئے خریدی گئی گولیوں اور اسلحہ سے ریاست نے اپنے ہی شہریوں کا نا حق خون بہایا اور یہ منظر قومی الیکٹرونک میڈیا کے ذریعے پوری قوم نے دیکھا۔ عفت مآب خواتین کومرد پولیس کے ’’جوانوں‘‘ نے سینوں اور جبڑوں پر گولیاں ماریں۔ محراب سے سجی پیشانیوں کو گولیوں سے داغا ،براق جیسی سفید داڑھیوں کو انہی کے لہو سے سرخ کیا ،اس ظلم اور بربریت کا مظاہرہ کرنیوالے اعلیٰ پولیس افسروں کو شرم آئی اور نہ ایوانوں میں بیٹھی ’’اشرافیہ ‘‘کو حیا آئی کہ آخر کس جرم پر نوجوانوں، بزرگوں اور خواتین سے ان کی زندگی کا حق چھینا جارہا ہے؟
ہم شہدائے ماڈل ٹاؤن کی تیسری برسی منا رہے ہیں۔ تین برسوں کا کوئی ایک دن ایسا نہیں جب ہم اپنے شہداء کی یاد سے غافل ہوئے ہوں اور کوئی دن ایسا نہیں کہ انصاف بشکلِ قصاص لینے کی قانونی جدوجہد میں غفلت کی گئی ہو۔ تیسری برسی کے موقع پر تحریک سے وابستہ ہر کارکن کی آنکھ اشکباراور دل غم سے چور ہے مگر ظالم نظام اور قاتل حکمرانوں کے خلاف نفرت اورانہیں کیفر کردار تک پہنچانے کا عزم پہلے سے شدید تر ہے۔ ہمیں فخر ہے قائد انقلاب ڈاکٹر محمد طاہر القادری کے شہید بیٹوں اور بیٹیوں کی قربانی پر کہ جنہوں نے درندہ صفت حکمرانوں کی بھیجی ہوئی غنڈہ فورس کے سامنے سر کٹو اتو لیامگر جھکایا نہیں۔
شہداء کی طرح شہداء کے ورثاء بھی بے مثال اور عظیم ہیں کہ انہوں نے فرعون کی طاقت اور قارون کا خزانہ رکھنے والے حکمرانوں کی کروڑوں روپے کی پیشکش اور ہر طرح کے خوف اور لالچ کو پاؤں کی ٹھوکر مار دی مگر قائد سے محبت اور مشن سے وابستگی کو کمزور نہ پڑنے دیا۔
سانحہ ماڈل ٹاؤن کی ’’ظلم کہانی ‘‘سے بچہ بچہ واقف ہے کہ کس طرح بیرئیرز ہٹانے کی آڑ میں قائد انقلاب ڈاکٹر طاہر القادری کو پاکستان آنے اور ظالم حکومت کے خلاف تحریک چلانے سے روکنے کیلئے’’ اشرافیہ‘‘ نے ماڈل ٹاؤن میں خون کی ندیاں بہائیں ،کیونکہ’’ اشرافیہ‘‘ جانتی تھی کہ ڈاکٹر طاہر القادری اور انکے جانثار کارکن فاشسٹ اقتدار کے خلاف سڑکوں پر آئے تو لوٹ مار کے دور کا خاتمہ ہو گااور لٹیروں کی بقیہ زندگی احتساب کے شکنجے اور جیلوں میں گزرے گی۔
آج تیسری برسی کے موقع قارئین مجلہ منہاج القرآن کو مختصر بتانا چاہتے ہیں کہ شہدائے ماڈل ٹاؤن کے انصاف بشکلِ قصاص کیلئے سربراہ عوامی تحریک ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی براہ راست نگرانی میں اب تک کیا قانونی چارہ جوئی کی گئی ہے اور کیس کس مرحلہ پر ہے۔
جسٹس باقر نجفی کمیشن کی رپورٹ
قارئین کے علم میں ہے کہ 17جون 2014ء کی شام پنجاب کے وزیر اعلیٰ( جسے تحریک کے کارکن قاتل اعلیٰ کے نام سے پکارتے ہیں)نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی جوڈیشل انکوائری کروانے کا فیصلہ کرتے ہوئے میڈیا کے ذریعے اعلان کیا تھا کہ اگر جوڈیشل انکوائری رپورٹ میں میری طرف اشارہ بھی ہوا تو عہدے سے الگ ہو جاؤں گا مگر جسٹس باقر نجفی کمشن نے وقت مقررہ پر انکوائری مکمل کر کے رپورٹ پنجاب حکومت کے حوالے کر دی مگر پنجاب حکومت نے رپورٹ پبلک کرنے سے انکار کر دیا۔
معروف اینکر کامران شاہد نے انکشاف کیا کہ جسٹس باقر نجفی کمشن نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کا ذمہ دار براہ راست پنجاب حکومت کو ٹھہرایا ہے۔ اینکر کا یہ انکشاف مبنی بر حقیقت اس لئے دکھائی دیتا ہے کہ اگر کمشن کی رپورٹ وزیر اعلیٰ پنجاب کے خلاف نہ ہوتی تو یقینا بلا تاخیر پبلک ہو چکی ہوتی۔
اس رپورٹ کے حصول کیلئے ستمبر 2014ء میں عوامی تحریک کی طرف سے لاہور ہائیکورٹ میںرٹ پٹیشن دائر کی گئی تھی اور پاکستان کے نامور قانون دان بیرسٹر علی ظفر کی خدمات حاصل کی گئیں جنہیں وکلاء کی بہترین ٹیم کی معاونت حاصل ہے۔ دسمبر2016ء تک رپورٹ کے حصول کیلئے عدالتی کارروائی چلتی رہی۔اس دوران بنچ ٹوٹتے اور بنتے رہے تاہم دسمبر 2016 ء میں نیا بنچ بنا اور اب یہ بنچ از سر نو دلائل سنے گا مگر دسمبر 2016ء کے بعد یہ کیس زیر سماعت نہیں آیا،یعنی تین سال بعد تاریخ ملنا بھی بند ہو گئی؟ اس موقع پر رپورٹ کے حصول کیلئے سپریم کورٹ سے بھی رجوع نہیں کیا جا سکتا کیونکہ ہائیکورٹ اپنا فیصلہ سنائے گی تو مزید قانونی چارہ جوئی آگے بڑھ سکے گی۔ رپورٹ کے حصول کیلئے عوامی تحریک بھر پور قانونی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہے چونکہ فیصلہ عدالت نے سنانا ہے اس لئے انتظار جاری ہے۔
FIR کے اندراج کا بنیادی حق بھی چھین لیا گیا:
17 جون 2014ء کو پولیس نے منہاج القرآن اور پاکستان عوامی تحریک کے 14 افراد کو شہید اور 100 کارکنوں کو سیدھی گولیاں مارنے کے بعد منہاج القرآن کے قائدین و کارکنان پر ہی FIR-510/14 درج کر دی اور پولیس نے شہدائے ماڈل ٹاؤن کی ایف آئی آر درج کرنے سے انکار کر دیا تو ایف آئی آر کے اندراج کیلئے سیشن کورٹ میں گئے۔ سیشن کورٹ نے ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دیا لیکن اس کے باوجود پولیس نے ایف آئی آر کا اندراج نہ کیا بلکہ حکومتی وزراء جو اس سانحہ میں ملوث تھے انہوں نے سیشن کورٹ کے حکم کے خلاف لاہور ہائیکورٹ میں رٹ فائل کر دی جو کہ لاہور ہائیکورٹ نے خارج کر دی لیکن اس کے باوجود پولیس نے ایف آئی آر کااندراج نہ کیا کیونکہ اس میں وزیراعظم بمعہ وزیراعلیٰ، وزراء اور بااثر لوگ ملوث تھے۔
دھرنے کے دوران آرمی چیف کی مداخلت سے ایف آئی آر 696/14 کا اندراج ہوا ،حکمرانوں نے جانبدار جے آئی ٹی بنا کر کلین چٹ حاصل کر لی جس کے بعد صرف استغاثہ دائر کرنے کا آپشن رہ گیاتھا۔
استغاثہ دائر کرنے کا فیصلہ:
پولیس نے شہدائے ماڈل ٹاؤن کی ایف آئی آر درج کرنے سے انکار کر دیا تھا یہ ایف آئی آر عدالت کے حکم پر بھی درج نہ ہو سکی تو پھر سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی مداخلت پر ایف آئی آر درج ہوئی۔ حکومت نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی ایف آئی آر عوامی تحریک کے کارکنان کے خلاف درج کروا دی تھی۔ پولیس کی معیت میں درج ایف آئی آر نمبر 510 میں الزام لگایا گیا کہ عوامی تحریک کے 14کارکنوں کو عوامی تحریک کے 42کارکنوں نے شہید کیا اور دھوکہ دہی کیلئے 5پولیس اہلکاروں کو بھی فائرنگ کرنے کا ذمہ دار ٹھہرایا اور چالان بھی عدالت میں پیش کر دیا۔
انسداد دہشتگردی کی عدالت نے دونوں ایف آئی آرز پر روزانہ کی بنیاد پر سماعت شروع کر دی۔ سربراہ عوامی تحریک نے اے ٹی سی کی برق رفتار کارروائی سے بھانپ لیا کہ کیس کو داخل دفتر کرنے کی کوشش ہو رہی ہے، لہذا انکی ہدایت پر استغاثہ دائر کر دیا گیا۔ استغاثہ مارچ 2016ء میں دائر کیا گیا اور فوجداری مقدمات اور ٹرائل کورٹ کے بہترین وکلاء کی خدمات حاصل کی گئیں۔ استغاثہ جواد حامد کی طرف سے دائر کیا گیا ،جنہوں نے انتہائی جرات مندی کے ساتھ مسلسل دو روز اے ٹی سی میں اپنا بیان ریکارڈ کروایا۔
استغاثہ دائر ہونے کا قانونی فائدہ یہ ہوا کہ اے ٹی سی پولیس کے چالان اور ’’حکومتی ساختہ‘‘ جے آئی ٹی کی رپورٹ کی روشنی میں جو فیصلہ سنانا چا رہی تھی اسے بریک لگ گئی۔ استغاثہ کے تحت10ماہ تک عوامی تحریک کے 56گواہان نے اپنے بیانات قلمبند کروائے۔ بیانات ریکارڈ کروانیوالوں میں مرکزی رہنما خرم نواز گنڈا پوراور فیاض وڑائچ بھی شامل تھے۔
گواہان کی جرأت مندانہ گواہیاں:
عوامی تحریک کے56 کارکنان جن میں خواتین بھی شامل تھیں نے پوری جرات کے ساتھ وقت کے فرعونوں اور یزیدوں کے خلاف اے ٹی سی میں اپنے بیانات ریکارڈ کروائے۔ کوئی ایک بھی ایسا کارکن نہ تھا جس نے گواہ بننے کے حوالے سے لیت و لعل سے کام لیا ہو۔ کارکنان کی بےباکی پر اے ٹی سی جج اور عدالتی عملہ بھی انگشت بدنداں تھا۔ کارکنوں نے عدالت کے فلور پر قاتلوں کے نام و پتے اور انہیں حکم دینے والوں کے متعلق تفصیل سے گواہیاں دیں۔
یہاں ایک واقعہ درج کیا جا تاہے جس سے اندازہ ہو گا کہ قائد انقلاب کے بیٹے اور بیٹیاں کس طرح جرات اور ایمانی غیرت کے ساتھ مشن سے جڑے ہوئے ہیں۔ 2015ء میں ایک بیوہ ماں کے اکلوتے بیٹے زین کو بااثر کانجو خاندان کے نوجوان نے دن دیہاڑے لاہور میں قتل کر دیا۔ واقعہ کو میڈیا پر بہت پذیرائی ملی اور یہ امید بندھی کہ بااثر ملزم کسی صورت سزا سے نہیں بچ پائے گا مگر اندازے غلط ثابت ہوئے اور اکلوتے بیٹے کو قتل کرنیوالا ملزم ٹرائل کورٹ سے رہا ہو گیا۔ اس فیصلہ پر سپریم کورٹ کے سنیئر جج جسٹس امیر ہانی نے زین کی والدہ کو عدالت میں بلایا تو اس نے آہوں اور سسکیوں کے ساتھ کہاکہ میں کمزور ہوں با اثر ملزموں کے خلاف مقدمہ نہیں لڑ سکتی۔
جس ظالم نظام میں ایک ماں ،قاتل کے خلاف اپنے بیٹے کا مقدمہ لڑنے سے عاجز ہو اس ظالم نظام میں ڈاکٹر طاہر القادری کے غریب مگر غیور کارکنوں کا وقت کے حاکم فرعونوں قاتلوں کے خلاف گواہیاں دینا اور ثابت قدم رہنا غیر معمولی بات ہے۔ انسداد دہشتگردی کی عدالت میں قاتل حکمرانوں کے خلاف گواہیاں دینے والے کارکن عظیم اور سلیوٹ کے مستحق ہیں۔
ٹھوس شہادتیں، استغاثہ کی منظوری، ملزمان کی طلبی:
56 ٹھوس شہادتوں، آڈیو اور ویڈیو ثبوتوں کے بعد عدالت نے 9 فروری 2017ء کے دن استغاثہ منظور کر لیا۔ تاہم ماڈل ٹاؤن میں قتل و غارت گری میں حصہ لینے والے ملازمین کو تو طلب کر لیا گیا مگر حکم دینے والے منصوبہ سازوں کے نام استغاثہ سے نکال دئیے گئے۔ جن کو طلب کیا گیا ان میں آئی جی سے لے کر سپاہی تک شامل ہیںاور جنہیں طلب نہیں کیا گیا ان میں شریف برادران، وفاقی وزراء ،ڈاکٹر توقیر شامل ہیں۔جنہیں طلب نہیں کیا گیا انکے خلاف عوامی تحریک لاہور ہائیکورٹ میں جا چکی ہے اور لاہور ہائیکورٹ سے مرکزی ملزمان(جو سانحہ کے ماسٹر مائنڈ ہیں) کی طلبی کی استدعا کی گئی ہے اس پر بھی تاریخیں پڑ رہی ہیں۔
سابق آئی جی پنجاب مشتاق سکھیرا نے اے ٹی سی کی طرف سے طلبی کے خلاف لاہور ہائیکورٹ سے عبوری سٹے آرڈر حاصل کر رکھا ہے اس کے خلاف بھی لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کیا گیا ہے کہ سابق آئی جی کا عبوری ریلیف ختم کر کے انہیں اے ٹی سی میں پیش ہونے کی ہدایت کی جائے۔ استغاثہ کیس میں 124 ملزمان کو طلب کیا گیا ہے جن میں اکثریت پولیس افسرا ن اور اہلکاروں کی ہے۔ طلب کئے گئے ملزمان میں اس وقت کے ڈی سی او لاہور اور ٹی ایم او بھی شامل ہیں۔
اس وقت سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس کے حوالے سے قانونی جنگ چل رہی ہے اور سانحہ ماڈل ٹاؤن کے قاتلوں کو سزائیں دلوانے کیلئے قانونی دلائل اور زمینی حقائق و ثبوت عدالت میں پیش کئے جا رہے ہیں۔ عدالت کے آرڈراور سابق آرمی چیف کی مداخلت پر درج ہونیوالی ایف آئی آ ر سٹینڈ کر رہی ہے، اگرچہ شریف برادران کے نام استغاثہ کیس سے نکال دئیے گئے تاہم درج کروائی گئی ایف آئی آر میں بطور ملزم انکے نام شامل ہیں۔ استغاثہ کیس منظوری کے بعد ابھی ابتدائی مراحل میں ہے۔ ملزمان کی طلبی اور حاضری کو یقینی بنانے کیلئے وکلاء ٹیم بھر پور مانیٹرنگ کر رہی ہے۔ جہاں کہیں بھی لوئیر کورٹ کے کسی فیصلے کو چیلنج کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے اسے بلا تاخیر ہائیکورٹ میں چیلنج کیا جاتا ہے۔ گلو بٹ کی رہائی کے ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں رٹ فائل کی جا چکی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہائیکورٹ میں ان تمام پولیس افسران کو عہدوں سے ہٹانے کی رٹ بھی فائل کی گئی ہے کہ جب تک استغاثہ کیس کا فیصلہ نہیں ہو جاتا تب تک کوئی ملزم پولیس افسر عہدے پر برقرار نہ رہ سکے، اس پر بھی سماعت جاری ہے۔
سانحہ ماڈل ٹاؤن کی جب تک ایف آئی آر درج نہ ہوئی تھی اس وقت تک اسے بھرپور طریقے سے میڈیا کے محاذ پر لڑا گیا ،احتجاجی مظاہرے بھی ہوئے۔ قائد انقلاب ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے پور ی سوچ بچار کے ساتھ قصاص تحریک کے پہلے راؤنڈ کا اعلان کیا اور ملک گیر احتجاج ہوا۔ کارکنوں کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر نے شہر شہر احتجاج میں حصہ لیا اور شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ساتھ بھر پور اظہار یکجہتی کیا۔ قصاص تحریک کے پہلے راؤنڈ کا آخری احتجاجی جلسہ راولپنڈی میں 3ستمبر 2016ء کو ہو۔
اس موقع پر قائدانقلاب نے اعلان کیا تھا کہ قصاص تحریک کے تین راؤنڈ ہیں۔دو راؤنڈز باقی ہیں جنکا اعلان مناسب وقت پر ہوگا۔ ہم سب کا اس بات پر پختہ یقین ہے کہ ہمارے صاحب بصیرت قائد وہ سب کچھ دیکھ رہے ہوتے ہیں جو ہماری نظروں سے پنہاں ہوتا ہے۔ اس وقت سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس عدالت میں ہے اور قانونی جنگ کمرہ عدالت میں لڑی جا رہی ہے۔ابھی استغاثہ کیس ابتدائی مرحلے میں ہے اور کیس کسی فیصلہ کن مرحلہ کی طرف نہیں بڑھا۔ قائدانقلاب قانونی کارروائی کے حوالے سے براہ راست مانیٹرنگ کر رہے ہیں۔ جب وہ محسوس کرینگے کہ اب ہمیں انصاف کیلئے عدالت کے علاوہ کسی اور جگہ بھی نکلنا پڑے گا تو بلا تاخیر انکی ہدایات آئیں گی۔
17 جون 2014ء کے دن خون نا حق بہا ،یہ انسانی خون کسی صورت رائیگاں نہیں جائیگا۔ ظالم اور قاتل بلآخر اپنے انجام کو پہنچیں گے اور قطرے قطرے کا حساب اسی دنیا میں دے کر رخصت ہونگے۔
شہداء ماڈل ٹاؤن کی تیسری برسی کے موقع پر ہم 30اور 31اگست2014ء کی رات کے شہداء اور زخمیوں کو بھی سلام پیش کرتے ہیں۔ انقلاب مارچ کے مسافروں کو بھی خراج تحسین پیش کرتے ہیں جنہوں نے قائد کے حکم پر آگ اور خون کے دریا عبور کر کے اسلام آباد پہنچے کی کوشش کی اور اس کوشش میں اشرافیہ کی یزیدیت کا پامردی سے مقابلہ کیا،زخمی بھی ہوئے اور جھوٹے مقدمات بھی جھیلے۔
تیسری برسی پر اسیران انقلاب مارچ کو بھی خراج تحسین پیش کرتے ہیں جو تین سال کے بعد بھی قید و بند کی سختیاں جھیل رہے ہیں اور جھوٹے مقدمات میں صوبہ کی مختلف عدالتوں میں پیش ہو رہے ہیں۔ پانامہ لیکس یا ڈان لیکس نہیں، قاتل اشرافیہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس میں انجام سے دوچار ہو گی۔
ماخوذ از ماہنامہ منہاج القرآن، جون 2017
تبصرہ