افتخار محمد چوہدری سربراہ عوامی تحریک کی رٹ سن لیتے تو آج پانامہ کے کرپٹ کردار عوام کی تقدیر کے سیاہ و سفید کے مالک نہ ہوتے
لاہور
(29 دسمبر 2016) سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری غیر آئینی الیکشن کمیشن کی تشکیل
اور کرپٹ انتخابی پریکٹسز کے حوالے سے سربراہ عوامی تحریک ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی2013
میں عام انتخابات سے قبل دائر کی جانیوالی رٹ پٹیشن سن لیتے اور آئین کے مطابق فیصلہ
کر دیتے تو آج پانامہ کے کرپٹ کرداراور سانحہ ماڈل ٹاؤن کے قاتل 19 کروڑ عوام کی تقدیر
کے سیاہ و سفید کے مالک نہ ہوتے۔ ان خیالات کا اظہار پاکستان عوامی تحریک کے مرکزی
سیکرٹری اطلاعات نور اللہ صدیقی نے یہاں مرکزی سیکرٹریٹ میں عہدیداروں اور اخبار نویسوں
سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔
انہوں نے کہا کہ آج سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری دیگر بے بس عوام کی طرح حکمرانوں کی کرپشن، لاقانونیت پر سراپا احتجاج ہیں مگر قدرت نے انہیں موقع دیا تھا کہ وہ سیاسی، معاشی اور انتخابی برائیوں کو جڑ سے کاٹ پھینکنے کیلئے اختیارات برؤے کار لاتے۔ انہوں نے کہا کہ سربراہ عوامی تحریک ڈاکٹر طاہرالقادری نے حقیقی جمہوریت کے قیام کے راہ کی بڑی رکاوٹ غیر آئینی الیکشن کمیشن قرار دیا تھا اور اس ضمن میں انہوں نے ضروری ثبوتوں کے ساتھ پاکستان کی سب سے بڑی عدالت کے دروازے پر دستک دیتے ہوئے اپنا قومی، جمہوری فریضہ انجام دیا، مگر افسوس اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے سربراہ عوامی تحریک کی طرف سے اٹھائے گئے آئینی نکات پر توجہ نہ دی۔
انہوں نے کہا کہ شریف برادران نے ڈیفالٹر کی حیثیت سے 2013 کا الیکشن لڑا۔ آر اوز نے انتخابی معاملات میں کھلی مداخلت کی، امیدواروں کی طرف سے کاغذات نامزدگی داخل کرتے وقت اور سکروٹنی کے موقع پر الیکشن کمیشن نے دانستہ آنکھیں بند رکھیں۔ اثاثہ جات کی چھان بین کے حوالے سے آئینی و انتخابی قوانین کو نظر انداز کیا، آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کو ردی کے ایک ٹکڑے سے زیادہ اہمیت نہ دی اور انتخابی قوانین اور ضوابط کے بر عکس پیسے کا بے رحم استعمال کر کے رائے عامہ کو ہائی جیک کیا گیا مگر ان تمام مراحل میں الیکشن کمیشن نے خاموش تماشائی کا کردار ادا کیا جس کا نتیجہ ایک دھاندلی زدہ حکومت کی تشکیل کی صورت میں سامنے آیا۔
انہوں نے کہاکہ پاکستان میں جرم کی نشاندہی کرنا اور اسے ثابت کرنا دو الگ الگ چیلنج ہیں، اس لئے آج کے دن تک حمود الرحمان کمیشن کی رپورٹ ہو یا پانامہ لیکس جرم ثابت نہیں ہو سکا۔ انہوں نے کہا کہ سابق چیف جسٹس آج جن تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں اس کے بارے میں صرف یہی کہا جا سکتا ہے کہ ’’اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت‘‘۔
نور اللہ صدیقی نے کہاکہ ڈاکٹر طاہرالقادری کا آج بھی یہی موقف ہے کہ جب تک آئین کے مطابق عام انتخابات کا انعقاد نہیں ہو گا اور سیاست کو کاروبار کا درجہ دینے والے کرپٹ عناصر کو انتخابی عمل سے باہر نہیں کر دیا جاتا، پارلیمنٹ کا تقدس بحال ہو گا نہ پاکستان اور اسکے عوام حقیقی جمہوریت کے ثمرات سے بہرہ مند ہو سکیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر طاہرالقادری نے غیر آئینی الیکشن کمیشن اور کرپٹ انتخابی پریکٹسز کے خلاف لاہور سے اسلام آباد لاکھوں کارکنان کے ہمراہ لانگ مارچ کر کے قومی اداروں، سیاسی قوتوں اور محب وطن جمہوریت پسند عوام کی توجہ مبذول کروائی مگر مک مکا اور گٹھ جوڑ کے سیاسی کلچر نے بہتری کا دروازہ نہ کھلنے دیا۔
تبصرہ