موجودہ حکومت نے 280 ارب کے قرضے کن غرباء کو معاف کیے، سامنے آنا چاہیے: عوامی تحریک
280 ارب چاروں صوبائی حکومتوں کے تعلیمی ترقیاتی بجٹ سے بھی زیادہ
ہیں
قرضے معاف کروانے والوں کی جسٹس جمشید کمیشن تسلی بخش تحقیقات کر چکا، نوراللہ صدیقی
لاہور
(23 جولائی 2016) پاکستان عوامی تحریک کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات نوراللہ صدیقی نے کہا
ہے کہ سینیٹ میں پیش ہونے والی قرضہ معافی دستاویز اس اعتبار سے ہوشربا ہے کہ موجودہ
حکمرانوں نے بھی اپنے 3 سالہ عہد اقتدار میں 280 ارب کے قرضے معاف کر ڈالے۔ یہ قرضے
کن غرباء اور شرفا کے معاف گئے سامنے آنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ 280ارب چاروں صوبائی
حکومتوں کے تعلیمی، ترقیاتی بجٹ سے بھی زیاد ہ ہیں، عوام اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں کہ
اس ملک کو کس کس طریقے سے لوٹا جارہا ہے۔ ایک طرف قرضے معاف کر کے اور دوسری طرف دھڑا
دھڑ غیر ملکی قرضے لیکر ملک کو تباہ کیا جارہا ہے۔ انہوں نے مرکزی سیکرٹریٹ میں گفتگو
کرتے ہوئے کہا کہ قرضہ معافی سکینڈل کی 2012ء میں جسٹس جمشید کمیشن تسلی بخش عدالتی
تحقیقات کر چکا ہے۔ یہ تحقیقات اس وقت کے چیف جسٹس کی ہدایت پر ہوئی تھی اور یہ عدالتی
تحقیقات پانچ ہزار صفحات پر مشتمل ہے۔ 2012ء میں مکمل ہونے والی یہ عدالتی تحقیقات
2013ء سے قبل الیکشن کمیشن کے پاس ہونی چاہیے تھی تاکہ امیدواروں کی اہلیت اس عدالتی
دستاویز کی روشنی میں جانچی جاتی مگر نہ صرف قرضہ معافی کی یہ عدالتی دستاویز 2013ء
میں الیکشن کمیشن یا نیب کو نہیں دی گئی بلکہ موجودہ حکومت نے بھی تین سال تک اس عدالتی
تحقیقات پر خاموشی اختیار کر کے جرم کیا اور نہ صرف خاموشی اختیار کرنے کا جرم کیا
بلکہ مزید 280 ارب روپے کے قرضے معاف کر دئیے۔ انہوں نے کہا کہ اب حکمران چاہتے ہیں
کہ قرضہ معافی کے معاملہ کو بھی پانامہ لیکس کے ٹی او آرز کا حصہ بنا دیا جائے یہ مطالبہ
بدنیتی پر مبنی ہے کیونکہ پانامہ لیکس کے ساتھ دیگر معاشی جرائم بھی شامل کر لیے گئے
تو پھر قیامت تک کوئی فیصلہ سامنے نہیں آسکے گا۔ انہوں نے کہا کہ حکمرانوں کے معاشی
جرائم کی شفاف تحقیقات کیلئے عوام کو اپنا احتجاجی دباؤ والا کردار بروئے کار لانا
ہو گا جب تک عوام فیصلہ کن کردار ادا نہیں کرینگے حکمرانوں کا شفاف احتساب نا ممکن
ہے۔
تبصرہ