پاکستان کی بقا مزید صوبوں اور متناسب نمائندگی کے نظام میں ہے: خرم نواز گنڈاپور
وقت آ گیا نام نہاد جمہوری نظام کی اس متعفن لاش کو بلا جنازہ دفن کر دیا جائے
25 کروڑ عوام کا پیسہ لاہور سمیت بڑے شہروں کو دلہن بنانے پر خرچ ہوتا ہے
سول آمریت اور بیوروکریسی کی فرعونیت سے نجات کےلئے نئے صوبے ناگزیر ہیں

لاہور (19 اگست 2025) پاکستان عوامی تحریک کے سیکرٹری جنرل خرم نواز گنڈاپور نے کہا ہے کہ پاکستان کی بقا مزید انتظامی صوبوں کی تشکیل اور متناسب نمائندگی کے نظام میں ہے۔ یہ کیسی جمہوریت ہے جس میں بلدیاتی اداروں کو زہر قاتل سمجھا جا تا ہے؟ وقت آ گیا نام نہاد استحصالی اور کرپشن میں لتھڑے ہوئے اس جمہوری نظام کی متعفن لاش کو بلا جنازہ دفن کر دیا جائے۔ 25کروڑ عوام کا پیسہ لاہور سمیت چند بڑے شہروں کو دلہن بنانے پر خرچ ہوتا ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں، کوئی ملک و قوم کے پچاس ارب ڈالر برباد کر دے یا قوم کی جیبوں میں سے پلک جھپکتے تین سو ارب نکال لے کوئی پوچھنے والا نہیں۔ چیک اینڈ بیلنس کا نظام تو بادشاہتوں میں بھی ہوتا ہے۔
انہوں نے کہاکہ کوئی وزیر اعلیٰ اور وزیر اعظم غیر آباد اور بیابان علاقوں میں سینکڑوں ایکٹر اراضی رہائش کے لئے خرید کر پھر اسے قومی پیسے سے جنت نظیر بنا لیتا ہے جبکہ باقی ماندہ ملک زمانہ غار کی تصویر بنا رہتا ہے، اسے ریاست یا جمہوریت نہیں کہتے۔ انہوں نے کہاکہ نئے صوبے بنا کر این ایف سی ایوارڈ کے تحت انہیں براہ راست مالیاتی شیئر ٹرانسفر کرنے سے ترقی کا رکا ہوا سفر مساوی طور پر شروع ہو جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ عوام 78سال سے اس نظام کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھ رہے ہیں مگر ان کے حصے میں فاقوں، ناکوں اور ڈاکوں کے سوا کچھ نہیں آیا۔
ڈاکٹر طاہر القادری نے 15 سال قبل نئے صوبے بنانے کا ایک قابل عمل ورکنگ پیپر قوم کے سامنے رکھا تھا جو آج ماضی کی نسبت زیادہ قابل عمل ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس نظام کے سیاہ و سفید کے مالک غریب عوام کی حالت پر ترس کھاتے ہوئے اس لوٹ کھسوٹ کے نظام کو ختم کر کے ایک نیا نظام دیں جس میں پاکستان کا ہر شہری باعزت اور محفوظ ہو اور ہر شہری کے بچے معیاری تعلیم حاصل کر سکیں اور صلاحیت کے مطابق برسر روزگار آ سکیں۔ ایک ایسا نظام جس میںپائی پائی عوام کی فلاح و بہبود کے لئے خرچ ہو۔ انہوں نے کہا کہ قومیں اپنی غلطیوں سے خود ہی سیکھتی ہیں باہر سے کوئی نہیں آتا، ہمارے تمام ذمہ داروں کو اپنی ناکامیوں کا اعتراف کرتے ہوئے روشن مستقبل کےلئے غیر معمولی فیصلے کرنے میں لیت و لعل سے کام نہیں لینا چاہئے۔


تبصرہ