سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس، اسیران اور چند گزارشات
سانحہ
ماڈل ٹاؤن کا کیس عدالتوں میں زیر سماعت ہے اور حصول انصاف کے لیے ہر سطح کی عدالتوں
میں قانونی جنگ جاری ہے۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن کا کیس اس وقت اے ٹی سی، لاہور ہائیکورٹ اور
سپریم کورٹ میں لڑا جارہا ہے اور ملزمان کی طلبی اور غیر جانبدار تفتیش کے لئے مختلف
اپیلیں دائر کی گئی ہیں۔
سانحہ ماڈل ٹاؤن کا ایک پہلو قانونی چارہ جوئی کی شکل میں ہے اور فوجداری مقدمات لڑنے اور ٹرائل کا وسیع تجربہ رکھنے والے بہترین وکلاء کی ٹیم کے ذریعے قانونی جنگ لڑی جا رہی ہے۔
گزشتہ دنوں اسیر محمد سلطان جو برین ٹیومر کے مریض تھے کے علاج کے ضمن میں کچھ تبصرے پڑھنے اور سننے کو ملے اور اس طرح کا تاثر قائم ہوا جیسے اسیران کا کوئی پرسان حال نہیں ہے، حقیقت میں جب یہ تبصرے جاری تھے اس وقت بھی پاکستان عوامی تحریک کے سیکرٹری جنرل، دیگر عہدیدار اور وکلاء اسیر محمد سلطان کے علاج اور دیگر اسیران کے ریلیف اور انصاف کے لیے ہر سطح پر ملاقاتیں اور رابطے جاری رکھے ہوئے تھے۔
اسیر محمد سلطان کے علاج کے لیے سیکرٹری جنرل خرم نواز گنڈاپور نے متعلقہ حکام سے درجنوں ملاقاتیں کیں اور انہیں اسیر محمد سلطان کے بروقت علاج کے بارے میں سنگین صورتحال سے آگاہ کیا۔ اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ موجودہ حکومت نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے مظلوموں کو انصاف دلوانے کے لیے بیانات کی حد تک بہت گرمجوشی دکھائی لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جب بھی سانحہ ماڈل ٹاؤن کے انصاف کے لیے کسی سرکاری عہدیدار سے رابطہ ہوا تو انہوں نے تعاون کی بھرپور یقین دہانیاں کروائیں لیکن عملاً کوئی پیشرفت نہیں ہو سکی، لیکن اس سب سے قطع نظر سانحہ ماڈل ٹاؤن کے مظلوموں اور اسیران کو کسی بھی مرحلہ پر تنہا نہیں چھوڑا گیا، ان کے لواحقین اور عزیز و اقارب کو درپیش مختلف النوع کے مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کیا گیا، ان کے بچوں کی شادیاں، تعلیم و تربیت کے حوالے سے معاونت، ماہانہ گھریلو اخراجات، اسیران کے قانونی اخراجات اور کسی بھی بیماری کی صورت میں مرکز نے تمام تر مالی تعاون فراہم کیا، یہ کوئی احسان نہیں ہے، صرف ان احباب کی معلومات کے لیے اس کا مختصر ذکر کیا جو لاعلمی کی وجہ سے مخالفانہ پراپیگنڈا کا شکار ہو جاتے ہیں، اور یہ سب عظیم کارکنان کی بے مثال قربانیوں کے اعتراف کی ایک کوشش ہے۔ ان بے مثال کارکنوں کی قربانیوں کا کوئی معاوضہ اور بدل نہیں ہے۔ یہ تحریک کے ہیرو ہیں جنہوں نے اس ظالم نظام کے خلاف جان و مال کی قربانیاں دیں، اور ثابت قدم رہے اور پاکستان بھر میں سیاسی کارکنان کے لیے ایک رول ماڈل بن کر سامنے آئے، ان کارکنان کے انصاف کے لیے جدوجہد کرنا ایمان کاحصہ ہے اور اس حوالے سے قائد تحریک شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری بارہا کہہ چکے ہیں کہ جب تک سانس باقی ہے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے مظلوموں کے انصاف کی جنگ لڑتے رہیں گے۔
سانحہ ماڈل ٹاؤن کے انصاف کی جدوجہد سالہا سال سے جاری ہے اور روزانہ کی بنیاد پر ان امور پر صلاح مشورے جاری رہتے ہیں اور اسیران اور مظلوموں سے رابطہ رکھا جاتا ہے، ہر معاملہ مشتہر نہیں کیا جاتا اور جب تحریک انصاف کے حکومتی زعما سے ملاقاتیں ہوتی ہیں اور وہ انصاف کے لیے یقین دہانیاں کرواتے ہیں اور عملاً پیشرفت نہیں ہوتی تو ایسی مشاورتی ملاقاتوں کو اکثر و بیشتر مشتہر نہیں کیا جاتا اور نہ ہی اسیران اور مظلوموں کے حوالے سے بروئے کار لائی جانے والی مساعی کو مشتہر کیا جاتا ہے۔ اس سے شاید یہ تاثر لینے کی کوشش کی جاتی ہے کہ اسیران کے لیے کچھ نہیں ہورہا، حالانکہ اس تاثر کی واحد وجہ لاعلمی ہوتا ہے اور لاعلمی کی بنیاد پر جب سوشل میڈیا پر یا مختلف فیس بکوں پر رائے زنی کی جاتی ہے تو ایک منفی تاثر جنم لیتا ہے جس سے بچنے کی کوشش کی جائے۔
قائد تحریک منہاج القرآن ڈاکٹر محمد طاہرالقادری حصول انصاف کی جملہ جدوجہد کی براہ راست نگرانی کررہے ہیں اور وہ روزانہ کی بنیاد پر سانحہ ماڈل ٹاؤن کے کیس میں ہونے والی پیشرفت اور اسیران کے معاملات پر رپورٹ طلب کرتے رہتے ہیں اور مزید ہدایات دیتے رہتے ہیں۔ کوئی گمان بھی نہیں کر سکتا کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے مظلوموں اور اسیران کے معاملے میں رتی برابر بھی کوتاہی کا ارتکاب کیا جا سکتا ہے، سوشل میڈیا پر متحرک تمام احباب سے یہ گزارش کی جاتی ہے کہ کسی بھی مسئلہ اور معلومات کے لیے پراپیگنڈا کا شکار نہ ہوں براہ راست مرکزی قائدین سے معلومات حاصل کریں۔ جب تک پوری طرح حقائق جان نہ لیں رائے زنی سے گریز کریں، اس سے مخالفین کو باتیں بنانے، منفی اور مذموم پروپیگنڈے کا موقع ملتا ہے۔اسے پروپیگنڈا کا مطلب داخلی اتحاد واعتماد کی فضا کو نقصان پہنچانا اور بد دلی پھیلانا ہوتا ہے
اللہ تعالیٰ ہمارے باہمی اتحاد و اعتماد کو قائم و دائم رکھے اور سانحہ ماڈل ٹاؤن کے اعلانیہ اور غیر اعلانیہ قاتلوں، منصوبہ سازوں اور معاونین کو عبرتناک انجام سے دو چار کرے۔
(ترجمان پاکستان عوامی تحریک)
تبصرہ