پنجاب کے تعلیمی شعبہ کی حالت زار پر عوامی تحریک کا حقائق نامہ
52 ہزار سکولوں کو بنیادی سہولتوں کی فراہمی کا پنجاب حکومت کا دعویٰ غلط ہے
20 ہزار سکول، واش روم، بجلی، پانی باؤنڈری وال اور استاد جیسی بنیادی ضرورت سے محروم ہیں
100 فیصد شرح داخلہ کا ملینیم ہدف 2015ء میں حاصل کرنا تھا، 2017ء میں بھی نہیں ہوا
پنجاب میں ایک کروڑ 30 لاکھ بچے سکول نہیں جاتے، سکولوں میں حاضری کی شرح 95 نہیں 64 فیصد ہے
8سال میں 10 ہزار سکول بند، 3 سو سے زائد سکول نجی شعبے کے حوالے کیے گئے، حقائق نامہ
پنجاب حکومت کا دانش سکول، ماڈل سکول اور سکول آف ایکسی لینس منصوبہ بری طرح ناکام ہوا
تعلیم کا ترقیاتی بجٹ ذاتی تشہیر پر خرچ ہو رہا ہے، حقائق نامہ مرکزی میڈیا سیل نے جاری کیا
لاہور (31 مارچ 2017) پاکستان عوامی تحریک پنجاب کی طرف سے تعلیمی ترقی کے حوالے سے پنجاب حکومت کی طرف سے شائع شدہ اعداد و شمار کو چیلنج کرتے ہوئے حقائق نامہ جاری کیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب کی طرف سے 52 ہزار سکولوں میں بنیادی سہولیات کی فراہمی کا دعویٰ درست نہیں ہے۔ پنجاب کے 20 ہزار سکول، واش روم، بجلی، پانی باؤنڈری وال اور استاد جیسی بنیادی ضرورت سے محروم ہیں۔ 100 فیصد شرح داخلہ کا ملینیم ہدف 2015ء میں حاصل کرنا تھا، 2017ء میں بھی نہیں ہواجو حکومت کی تعلیم دشمنی اور گورننس کے محاذ پر بدترین ناکامی ہے۔ پنجاب میں ایک کروڑ 30 لاکھ بچے سکول نہیں جاتے، سکولوں میں حاضری کی شرح 95 نہیں 64 فیصد ہے۔ 8 سال میں 10 ہزار سکول بند، 3سو سے زائد سکول نجی شعبے کے حوالے کیے گئے، پنجاب حکومت کا دانش سکول، ماڈل سکول اور سکول آف ایکسی لینس منصوبہ بری طرح ناکام ہوا، تعلیم کا ترقیاتی بجٹ ذاتی تشہیر پر خرچ ہورہا ہے، ڈراپ آؤٹ ریٹ داخلوں سے زیادہ ہے، معیار تعلیم کو بہتر بنانے اور ٹیچرز ٹریننگ پروگرام پر فنڈز کا اجراء نہ ہونے کے برابر ہے۔
حقائق نامہ پاکستان عوامی تحریک سنٹرل پنجاب کے صدر بشارت جسپال، جنوبی پنجاب کے صدر فیاض وڑائچ اور شمالی پنجاب کے صدر بریگیڈیئر (ر) محمد مشتاق نے جاری کیا۔
حقائق نامہ کے مطابق شہباز حکومت نے اپنے حالیہ مسلسل 8 سالہ دور حکومت میں نصف درجن کے قریب تعلیمی ترقی کے پروگرام دیئے جن میں کوئی بھی نتائج کے حصول میں کامیاب نہیں ہو سکا اور تعلیم کو فروغ دینے کیلئے تمام وسائل اور توانائیاں لیپ ٹاپ اور سولر لیمپ کی فراہمی تک محدود کر دی گئیں جس کا مقصد تعلیم کی ترقی نہیں بلکہ انتخابی مہم ہے۔
حقائق نامہ میں کہا گیا ہے کہ پنجاب میں13 فیصد سکول بیت الخلا، 14 فیصد بجلی، 6 فیصد چار دیواری، 15 فیصد پینے کے صاف پانی اور 29 فیصد اساتذہ کی کمی کا شکار ہیں، حقائق نامہ میں بتایا گیا کہ یونیسکو کی 2016ء کی رپورٹ کے مطابق ملک میں مجموعی ناخواندہ بچوں کا 52 فیصد پنجاب میں رہائش پذیر ہے اور پنجاب میں 13.1 ملین (ایک کروڑ 30 لاکھ سے زائد) سندھ میں 6.2 ملین، کے پی کے میں 2.5 ملین، بلوچستان میں 1.8 ملین بچے سکول نہیں جاتے، سکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد میں پنجاب سرفہرست صوبہ ہے۔ میلینم ڈویلپمنٹ گولز کے تحت 2015 تک شرح خواندگی کو 88 فیصد اور شرح داخلہ کو 100 فیصد تک بڑھانا تھا مگر یہ اہداف حاصل نہیں کیے جا سکے۔
حقائق نامہ کے مطابق تعلیمی ترقی کے حوالے سے کام کرنے والے ایک معتبر ادارے ’’انسٹیٹیوٹ آف سوشل اینڈ پالیسی سائنس‘‘ کی 2016-17ء کی رپورٹ کے مطابق پرائمری سطح پر بچوں کی حاضری کی شرح 64 فیصد ہے جبکہ سرکاری اشتہاروں میں 95 فیصد کا مبالغہ آمیز دعویٰ کیا جارہا ہے، رپورٹ کے مطابق پنجاب میں 39 فیصد مرد اور 48 فیصد خواتین ناخواندہ ہیں۔ ISAP کی رپورٹ کے مطابق پنجاب کے 36 اضلاع میں سے صرف 6 اضلاع میں پرائمری شعبہ میں بہتری ریکارڈ کی گئی ہے جن میں لاہور، گوجرانوالہ، راولپنڈی، ملتان، چکوال اور بہاولپور شامل ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس وقت پنجاب کے سکولوں، کالجز اور یونیورسٹی میں سب سے بڑا چیلنج منشیات کے استعمال کے رجحان میں اضافہ ہے، اس کی روک تھام کیلئے پنجاب حکومت نے کوئی پالیسی وضع نہیں کی، منشیات کے استعمال میں لاہور، فیصل آباد، راولپنڈی اور ملتان کے کالجز سرفہرست ہیں، پاکستان میں 40 فیصد مرد اور 9 فیصد خواتین تمباکو نوشی کا شکار ہیں۔ ہر سال ایک لاکھ لوگ منشیات کے استعمال کے باعث موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں، کم عمر بچو ں میں سگریٹ نوشی کا رجحان بھی بڑھ رہا ہے، اس ضمن میں قوانین پر عملدرآمد نہ ہونے کے برابر ہے۔ پرائیویٹ سکولوں کے 40 فیصد سے زائد طلبہ و طالبات مختلف قسم کی منشیات استعمال کررہے ہیں، کالج اور یونیورسٹی کی سطح پر ہر 10واں طالب علم کسی نہ کسی نشہ کی علت میں مبتلا ہے، کالجز اور یونیورسٹی کے کیفے ٹیریا منشیات فروشی کے سیل سنٹر بن چکے ہیں۔ وزیر ہائیر ایجوکیشن پنجاب، وفاقی وزیر داخلہ کے تمام تر دعوؤں کے باوجود منشیات کے استعمال اور خرید و فروخت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔
وائٹ پیپر میں کہا گیا ہے کہ اس وقت تعلیمی اداروں کو دہشت گرد حملوں کے خطرے کا بھی سامنا ہے، گلوبل ٹیررازم کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان کے مختلف تعلیمی اداروں پر 8 سو سے زائد دہشتگرد حملے ہو چکے ہیں، جن میں اے پی ایس پشاور، باچہ خان یونیورسٹی کے حملے بطور خاص قابل ذکر ہیں، ان اعداد و شمار کے باوجود پنجاب حکومت نے 8 سال میں 52 ہزار سکولوں کی حفاظت کیلئے کوئی حفاظتی اقدامات نہیں کیے۔ سکولوں میں بارہا سکیورٹی گارڈ بھرتی کرنے کے اعلانات کیے گئے مگر پنجاب حکومت کے پاس میٹرو بسوں، اورنج ٹرینوں اور فینسی منصوبوں کیلئے پیسے ہیں مگر ملک کا مستقبل بچوں کی حفاظت کیلئے پیسے نہیں ہیں۔
وائٹ پیپر میں بتایا گیا کہ تعلیمی ترقی کے دعوے اخباری بیانات اور اشتہارات تک محدود ہیں، اس وقت بھی کالجز میں 7 ہزار لیکچررز اور سکولوں میں 18 ہزار سے زائد سائنس ٹیچرز کی آسامیاں خالی ہیں۔
وائٹ پیپر میں انکشاف کیا گیا ہے کہ نیشنل ایجوکیشن فاؤنڈیشن کی رپورٹ کے مطابق پنجاب حکومت نے 13 ہزار 5 سو نان فارمل سکول کھولنے تھے مگر 8 ہزار سکول صرف کاغذی کارروائی تک محدود ہیں اور اس ضمن میں بھرتی کیے گئے اساتذہ گھر بیٹھے تنخواہیں وصول کررہے ہیں۔
وائٹ پیپر میں بتایا گیا ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب نے دانش سکول کے نام پر غریب بچوں کی اعلیٰ تعلیم و تربیت کا منصوبہ شروع کیا تھا اور بڑے بلند و بانگ دعوے کرتے ہوئے دانش سکول اتھارٹی کا دائرہ صوبہ کی ہر تحصیل تک بڑھانے کا اعلان کیا تھا مگر یہ منصوبہ اب صرف کاغذوں تک محدود ہے اور اس مد میں اربوں روپے ضائع کیے جا چکے ہیں، وزیراعلیٰ پنجاب چار سال قبل دن رات دانش سکول منصوبے کے فوائد اور فیوض و برکات گنواتے تھے اب تین سال سے ان کی زبان سے دانش نام کا کوئی لفظ بھی ادا نہیں ہوا۔ اس کے ساتھ ساتھ سینکڑوں ایکسی لینس ماڈل سکول بنانے کے منصوبے کا اعلان بھی کیا گیا تھا یہ منصوبہ بھی کاغذوں کی حد تک محدود ہو چکا ہے۔ نصاب کا بروقت تیار نہ ہونا، نصاب میں اغلاط اور قیمتوں میں اضافہ معمول کی کوتاہیاں بن چکی ہیں۔
وائٹ پیپر میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ 5 ارب روپے سے زائد رقم سے 6 ہزار سکولوں میں کمپیوٹرز لیبز بنائی گئی تھیں مگر آئی ٹی ٹیچرز بھرتی نہ کرنے اور ٹیکنیشنز نہ ہونے کے باعث یہ کمپیوٹر لیبز کباڑ خانے میں تبدیل ہو چکی ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پنجاب حکومت نے معیار تعلیم کو بہتر کرنے کیلئے 8 سال میں کوئی دلچسپی نہیں لی اور اساتذہ کے مسائل حل نہیں کیے جس کی وجہ سے اساتذہ سکولوں کی بجائے سڑکوں پر احتجاج کرتے نظر آتے ہیں۔
وائٹ پیپر میں کہا گیا ہے کہ حکمران اشتہاروں پر کروڑوں روپے خرچ کرنے کی بجائے معیار تعلیم کو بہتر بنانے اور سکولوں کو منشیات سے پاک کرنے پر قومی وسائل خرچ کریں۔








تبصرہ