استغاثہ دیر سے دائر کیوں کیا؟ اے ٹی سی جج کا عوامی تحریک کے وکلاء سے سوال
پولیس نے ایف آئی آر کے اندراج سے انکار کیا پھر متفقہ جے آئی ٹی
میں الجھائے رکھا
ایف آئی آر سابق آرمی چیف نے درج کرائی جس کیلئے دھرنا دینا پڑا:وکلاء عوامی تحریک
کا جواب
آج کے دن تک جسٹس باقر علی نجفی کمیشن کی رپورٹ بھی نہیں دی گئی، حکومت نے انصاف کا
خون کیا

لاہور (31 جنوری 2017) انسداد دہشتگردی کی عدالت کے جج نے عوامی تحریک کے وکلاء سے استغاثہ دائر کیے جانے میں تاخیر کے بارے سوال کیا جس کے جواب میں عوامی تحریک کے وکلاء رائے بشیر احمد ایڈووکیٹ اور نعیم الدین چودھری ایڈووکیٹ نے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ تھانہ فیصل ٹاؤن پولیس نے شہداء کے ورثاء کی ایف آئی آر درج کرنے سے انکار کر دیا جس پر ہم نے جسٹس آف پیس لاہور کی عدالت سے رجوع کیا، اس کے باوجود ایف آئی آر درج نہ ہوئی تو پھر ہم نے سیشن کورٹ سے رجوع کیا۔ سیشن کورٹ نے ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دیا مگر اس حکم کے خلاف وفاقی وزراء ہائیکورٹ میں چلے گئے۔ ہائیکورٹ کی طرف سے جب وفاقی وزراء کی رٹ خارج ہوئی توپھر بھی ہماری ایف آئی آر درج نہ کی گئی۔
عوامی تحریک اور شہداء کے ورثاء نے ڈاکٹر طاہرالقادری کی قیادت میں ایف آئی آر کے اندراج کے لیے لاہور سے اسلام آباد احتجاجی مارچ کیا اور دھرنا دیا۔ دھرنے کے دوران حکمرانوں کی درخواست پر سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے ہم سے رابطہ کیا جس پر ہم نے ایف آئی آر کے اندراج کا مطالبہ کیا۔ ہمارے اس مطالبہ پر آرمی چیف نے مداخلت کر کے ایف آئی آر درج کروائی۔ اس دوران بھی پولیس نے متعدد بار ہماری ایف آئی آر کے نفس مضمون کو تبدیل کیا اور ہمارے سخت نوٹس پر آرمی چیف نے ہماری ایف آئی آر اصل متن کے ساتھ درج کروائی اور انسداد دہشتگردی کی دفعات شامل کروائیں۔ ایف آئی آر کے اندراج کے بعد حکومتی وزراء نے فریقین کی مشاورت سے جے آئی ٹی تشکیل دینے کی پیشکش کی۔ انہی مذاکرات میں حکومت نے ہمیں الجھائے رکھا۔ بالآخر حکومت نے یکطرفہ طور پر جے آئی ٹی تشکیل دیدی۔ بعدازاں ہم نے جسٹس باقر علی نجفی جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ کے لیے قانونی چارہ جوئی کا آغاز کیا اور رپورٹ کی کاپی حاصل کرنے کے لیے ہائیکورٹ سے رجوع کیا۔ اس دوران حکومت نے جے آئی ٹی سے اپنی پسند کی رپورٹ مرتب کروالی۔
انہوں نے عدالت کو بتایا کہ ہماری درج کروائی گئی ایف آر نمبر 696 میں دو پولیس والے اور 42 شہدا کے ورثاء اور عوامی تحریک کے کارکنان کو سانحہ ماڈل ٹاؤن کا ذمہ دار قرار دے کر چالان انسداد دہشتگردی کی عدالت میں جمع کروا دیا۔ اس تمام حکومتی ناانصافی اور پولیس کے جانبدارانہ رویے سے مایوس ہو کر انصاف کے حصول کی جدوجہد میں بسیار انتظار کے بعد استغاثہ دائر کرنے کا فیصلہ کیا ہم آخری وقت تک اس امید میں تھے کہ ہمارے ساتھ انصاف ہو گا مگر ایسا نہ ہو سکا۔ ابھی تک ہم جسٹس باقر علی کمیشن کی رپورٹ کے حصول کیلئے ہائیکورٹ میں ہیں اور انصاف کے منتظر ہیں۔ رائے بشیر احمدا یڈووکیٹ نے کہا کہ استغاثہ کے تاخیر سے دائر ہونے کے پس پردہ جملہ حقائق عدالت کے روبرو رکھ دئیے ہیں تاہم ایسا کوئی قانون نہیں ہے جو تاخیر سے استغاثہ دائر کرنے پر اسے غیر قانونی قرار دیتا ہو۔ عوامی تحریک کے وکلاء کی طرف سے دلائل مکمل ہونے کے بعد اے ٹی سی جج نے کہا کہ ضرورت پڑنے پر میں مستغیث کے وکلاء کو عدالت میں بلاؤں گا۔


تبصرہ