’’جن شہادتوں پر ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی ہوئی وہ تمام ثبوت ماڈل ٹاؤن کیس میں موجود ہیں‘‘
عوامی تحریک کے وکلاء کے انسداد دہشت گردی کی عدالت میں دلائل،
مزید سماعت آج 31 جنوری کو ہو گی
سانحہ ماڈل ٹاؤن مجرمانہ سازش کا کیس ہے، بیریئر ہٹانے کا آپریشن غیر قانونی تھا،
وکلاء عوامی تحریک
شریف برادران دفعہ 109 اور 111 کے تحت سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ملزم ہیں، دلائل

لاہور (30 جنوری 2017) عوامی تحریک کے وکلاء نے سانحہ ماڈل ٹاؤن استغاثہ کیس میں انسداد دہشت گردی کی عدالت میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ جن شہادتوں کی بنیاد پر ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کی سزا سنائی گئی وہ سارے کے سارے ثبوت اور شہادتیں سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس میں موجود ہیں۔ بعض شہادتیں ذوالفقار علی بھٹو کیس سے بھی زیادہ ٹھوس ہیں۔ عوامی تحریک کے وکلاء پینل کے سربراہ رائے بشیر احمد ایڈووکیٹ نے دلائل دئیے۔ مزید سماعت 31 جنوری کو ہو گی۔ اس موقع پر مستغیث جواد حامد، نعیم الدین چودھری ایڈووکیٹ، اشتیاق چودھری ایڈووکیٹ، آصف سلہریا، ایم ایچ شاہین ایڈووکیٹ، سردار غضنفر ایڈووکیٹ، ناصر اقبال ایڈووکیٹ، رفاقت علی کاہلو ایڈووکیٹ، محبوب چودھری ایڈووکیٹ، یاسر ملک ایڈووکیٹ بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے۔
رائے بشیر احمد ایڈووکیٹ نے بعدازاں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو کیس میں کہا جاتا ہے کہ ایف آئی آر میں نام بعد میں درج ہوا جبکہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس رونما ہونے سے قبل ڈاکٹر طاہرالقادری ایک عوامی ایف آئی آر کے ذریعے اپنے خدشات ریکارڈ پر لے آئے تھے کہ مجھے یا میرے اہلخانہ یا پارٹی کے رہنماؤں کو کچھ ہوا تو اس کے ذمہ دار شریف برادران ہونگے اور دیگر افراد کے نام بھی انہوں نے اخبار میں شائع کروائے اور ہماری ایف آئی آر میں بھی شریف برادران بطور مرکزی ملزمان شامل ہیں۔ انہوں نے کہاکہ سانحہ ماڈل ٹاؤن سے قبل جتنی بھی منصوبہ بندی ہوئی ہم نے وہ سارے ثبوت عدالت کے سامنے رکھ دئیے ہیں۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن محض حادثہ نہیں ایک مجرمانہ سازش کا کیس ہے اور کا سیاسی فائدہ صرف اور صرف شریف برادران نے اٹھایا کیونکہ وہ چاہتے تھے کہ ان کے ماورائے آئین، قانون و جمہوریت کے خلاف ڈاکٹر طاہرالقادری اور ان کے کارکن اپنا جمہوری احتجاج نہ کر سکیں کیونکہ انہیں ڈر تھا کہ اگر ڈاکٹر طاہرالقادری نے ان کے ماورائے قانون اقدامات کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی تو وہ ایک ملک گیر سیاسی تحریک میں تبدیل ہو سکتی ہے جس سے ان کے سیاسی اور ذاتی مفادات خطرے میں پڑ سکتے ہیں۔ اس خوف کی وجہ سے انہوں نے پولیس کے ذریعے ماڈل ٹاؤن میں ہلہ بولا اور بڑے پیمانے پر خون ریزی کی۔
انہوں نے کہا کہ راتوں رات آئی جی پنجاب کو تبدیل کر کے ایک آئی جی بلوچستان سے پنجاب لایاگیا جس کی وجہ آج کے دن تک کسی کو نہیں بتائی گئی کہ اتنی بڑی تبدیلی کی آخر وجہ کیا تھی۔ رائے بشیر احمد ایڈووکیٹ نے اپنے دلائل میں کہا کہ 15 جون 2014 سے قبل شریف برادران کے دست راست وزراء نے ڈاکٹر طاہرالقادری کو پاکستان آمد پر سنگین نتائج کی دھمکیاں دینا شروع کر دی تھیں پھر اس کے بعد 15 جون 2014 ء کو جاتی عمرہ میں میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کی خصوصی ملاقات ہوئی جس کا ایجنڈا ڈاکٹر طاہرالقادری کی پاکستان آمد اور سانحہ ماڈل ٹاؤن تھا۔ پھر 15 جون کو ہی ایچ بلاک ماڈل ٹاؤن میں خرم نواز گنڈاپور اور دیگر رہنماؤں کو بلا کر ڈاکٹر طاہرالقادری کی پاکستان آمد کو روکنے کی دھمکی دی گئی، پھر 16 جون 2014 ء کے دن صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ نے ایوان وزیراعلیٰ میں میٹنگ کی جس کا ایجنڈا 17 جون کے دن بیریئر ہٹانا تھا۔ اس ساری کارروائی سے ظاہر ہوتا ہے کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن محض حادثہ نہیں تھا بلکہ اس کے مقاصد سیاسی تھے۔ انہوں نے کہا کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کیلئے ریاستی اختیارات کے حامل شریف برادران اور وزراء نے لاہور سے پولیس افسران اور اہلکاروں کو ماڈل ٹاؤن ایم بلاک میں جمع کیا۔ بصورت دیگر اتنی بھاری نفری کی قطعاً ضرورت نہ تھی۔ انہوں نے کہا کہ دفعہ 109 اور 111 کے تحت شریف برادران اور وفاقی و صوبائی وزراء سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ذمہ دار ہیں انہیں بے گناہوں کی جانیں لینے کے جرم میں کڑی سے کڑی سزا دی جائے۔


تبصرہ