سانحہ ماڈل ٹاؤن استغاثہ کیس: انسداد دہشتگردی کی عدالت کا روزانہ سماعت کا فیصلہ
عوامی تحریک کے وکلاء نے سانحہ کے مقتولین کی پوسٹ مارٹم رپورٹس اور زخمیوں کے ایم ایل سی جمع کروا دئیے
پہلا قتل سربراہ عوامی تحریک کے گھر کے دروازے پر ہوا، وہاں کون سے بیریئر لگے تھے؟ وکلاء کا سوال
وزیراعظم نے اپنے قابل اعتماد آئی جی مشتاق سکھیرا کو خصوصی طور پر بلوچستان سے پنجاب لگوایا، وکلاء
پاکستان کی تاریخ کا پہلا کیس ہے جس میں پراسیکیوٹرز مقتولین کی بجائے ملزمان کی سائیڈ لے رہے ہیں، وکلاء
سرکاری وکلاء نے ڈی آئی جی رانا عبدالجبار، ایس پی عبدالرحیم شیرازی اور طارق عزیز کے متعلق معلومات نہیں دیں
لاہور (16 جنوری 2017) سانحہ ماڈل ٹاؤن استغاثہ کیس کے حوالے سے گزشتہ روز انسداد دہشتگردی کی عدالت کے جج چودھری محمد اعظم نے کہا کہ اس انتہائی اہم کیس کی سماعت اب روزانہ کی بنیاد پر ہو گی۔ عوامی تحریک کے وکلاء نے استغاثہ کے حوالے سے اپنی بحث اور دلائل کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ 17 جون 2014ء کے دن کارکن تنزیلہ امجد کا پہلا قتل سربراہ عوامی تحریک ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی رہائش گاہ کے دروازے پر ہوا۔ پولیس والے زبردستی گھر کے اندر داخل ہونا چاہتے تھے کہ خواتین نے ہاتھوں کی چین بنا رکھی تھی۔ ڈی آئی جی رانا عبدالجبار نے کہا کہ میں 3 تک گنتی گنوں گا، خواتین نہ ہٹیں تو فائرنگ کر دی جائے گی اور پھر ایسا ہی ہوااور گولیوں کی بوچھاڑ تنزیلہ امجد کے چہرے کے آر پار ہو گئی اور وہ موقع پر شہید ہو گئیں۔
عوامی تحریک کے وکلاء رائے بشیر احمد ایڈووکیٹ نے سوال کرتے ہوئے کہا کہ پولیس اگر بیریئر ہٹانے کے لیے آئی تھی تو سربراہ عوامی تحریک ڈاکٹر محمد طاہر القادری کے دروازے پر کون سے بیریئر لگے تھے۔ نہتے کارکن اپنے قائد کی رہائش گاہ کی حفاظت کررہے تھے۔ بیریئر تو رہائش گاہ سے بہت دور لگے ہوئے تھے اور تمام بیریئر پولیس نے ہٹائے اور بیریئر ہٹانے کی کارروائی میں کوئی ایک کارکن بھی زخمی نہیں ہوا۔ اس کا مطلب ہے کہ بیریئر ہٹانے کے حوالے سے پولیس کو کسی قسم کی مزاحمت کا سامنا نہیں تھا۔ پولیس سیاسی مقاصد کے تحت قتل و غارت گری کے لیے آئی تھی اور انہوں نے وہی کیا جس کی انہیں ڈائریکشن دی گئی تھی۔ عوامی تحریک کی طرف سے نعیم الدین چودھری ایڈووکیٹ، لہراسب خان ایڈووکیٹ، اشتیاق چودھری ایڈووکیٹ، یاسر ایڈووکیٹ، مستغیث جواد حامد اور عوامی تحریک کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات نوراللہ صدیقی بھی عدالت میں موجود تھے۔
عوامی تحریک کی طرف سے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے مقتولین کی پوسٹ مارٹم رپورٹس اور زخمیوں کے ایم ایل سی جمع کروائے گئے۔ رائے بشیر احمد ایڈووکیٹ نے کہا کہ پولیس ڈاکٹر طاہر القادری کی رہائش گاہ اور منہاج القرآن سیکرٹریٹ کے اندر داخل ہونے پر بضد کیوں تھی؟ جبکہ بیریئر ان دونوں عمارتوں سے دور تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پولیس افسران نے بآواز بلند ڈاکٹر طاہر القادری کے گھر کے سامنے پارک کے اندر موجود چیک پوسٹ کو گرانے کا حکم دیا تو پولیس کو ذمہ دار عہدیداروں نے بتایا کے چیک پوسٹ کے اندر قرآن پاک کے نسخہ جات بھی موجود ہیں لیکن وہاں پر موجود ڈی آئی جی رانا عبدالجبار نے کہا کہ ان کی کوئی بات نہ سنی جائے۔ پولیس اہلکاروں نے چیک پوسٹ کو گرایا اور قرآن پاک کے نسخہ جات کی بے حرمتی کی جس کے ثبوت موجود ہیں۔
عوامی تحریک کے وکلاء نے کہا کہ تاریخ کا یہ پہلا کیس ہے جس میں پراسیکیوٹرز مقتولین کی بجائے ملزمان کے حق میں بول رہے ہیں حالانکہ یہ ان کی قانونی ذمہ داری ہے کہ وہ انصاف کی فراہمی کے حوالے سے عدالت کی مدد کریں مگر وہ پارٹی بنے ہوئے ہیں جو قانون اور اس ضمن میں متعدد اعلیٰ عدلیہ کے فیصلوں کے برخلاف ہے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ سماعت پر اے ٹی سی کے جج کی طرف سے ڈی آئی جی رانا عبدالجبار سے متعلق پوچھا گیا تھا کہ وہ کہاں ہیں؟ ان کے بارے میں معلومات دی جائیں مگر سرکاری وکلاء کی طرف سے یہ معلومات فراہم نہیں کی گئیں۔ رائے بشیر احمد ایڈووکیٹ نے کہا کہ ہم نے معزز جج سے درخواست کی ہے کہ وہ ڈی آئی جی رانا عبدالجبار کے ساتھ ساتھ ایس پی طارق عزیز اور ایس پی عبدالرحیم شیرازی کے بارے میں بھی دریافت کریں کہ وہ کہاں ہیں؟مزید سماعت منگل 17 جنوری 2017 ء کو ہو گی۔
تبصرہ