کمشنز انکوائری ایکٹ آف 1956کے تحت پانامہ لیکس کی تحقیقات نہیں ہو سکتیں: ڈاکٹر طاہرالقادری
پانامہ لیکس پر کمیشن بنانے سے متعلق حکومت جھوٹ بول رہی ہے، ڈاکٹر طاہرالقادری
خط کی حیثیت سیاسی، ٹی او آرز چھپائے جا رہے ہیں، سب سے پہلے حکمران خاندان کا احتساب کیا جائے
یہ کیسے کرامات اور معجزات والے بچے ہیں جو دنیا بھر میں اربوں، کھربوں کی جائیدادیں بنا رہے ہیں، گفتگو
پاکستان عوامی تحریک کے قائد ڈاکٹر طاہرالقادری نے ایکسپریس نیوز کے پروگرام تکرار کے میزبان عمران خان کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ کمیشن بنانے سے متعلق حکومت غلط بیانی سے کام لے رہی ہے، تا حال صرف خط لکھا جس کی اہمیت قانونی نہیں سیاسی ہے، تا حال کمیشن کیلئے حکومت نے نوٹیفیکیشن جاری نہیں کیا حکومت سنجیدہ ہے تو با اختیار کمیشن کی تشکیل کیلئے آرڈیننس جاری کرے۔ منصوبہ بندی کے تحت ابہام پیدا کیا جا رہا ہے، شریف برادران جب تک برسر اقتدار ہیں یہ اپنے خلاف کسی کمیشن اور انکوائری کی رپورٹ منظر عام پر نہیں آنے دیں گے۔
انہوں نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ وزیر اعظم نے کہاکہ اگر کمیشن کی رپورٹ انکے خلاف آئی تو وہ گھر چلے جائیں گے یہی اعلان انکے چھوٹے بھائی میاں شہباز شریف نے 17 جون 2014 کی شام کو سانحہ ماڈل ٹاؤن پر جوڈیشل کمیشن تشکیل دیتے ہوئے کیا تھا اور کہا تھا کمیشن نے میری طرف انگلی بھی کی تو گھر چلا جاؤں گا مگر گھر تو کیا جانا تھا اس کمیشن کی رپورٹ کی کاپی دینے سے بھی انکار کر دیا گیا۔ ہم ایک سال سے لاہور ہائیکورٹ میں دلائل دے رہے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ کمشنز انکوائری ایکٹ آف 1956کے تحت پانامہ لیکس کی تحقیقات نہیں ہو سکتیں اور نہ ہی اس ایکٹ کے تحت بین الاقوامی کرپشن کی چھان بین ممکن ہے، حکومت قوم کو دھوکہ دے رہی ہے۔ ایک ایسا کمیشن جس کے اختیارات سول کورٹ والے ہوں اس کا سربراہ چیف جسٹس آف پاکستان کیسے بن سکتا ہے؟ حکومت کسی بھی مرحلہ پر چاہے تو وہ کمیشن کو ختم بھی کر سکتی ہے۔ اگر کمشنز انکوائری ایکٹ 1956 کے تحت بنا تو اس کا سربراہ براہ راست کسی پولیس افسر کو نہیں بلا سکے گا۔ کسی کو بلانے کیلئے پھر حکومت سے اجازت لینا پڑے گی، خط میں جو کچھ لکھا گیا وہ عوام سے دھوکہ اور قانون سے مذاق ہے۔
انہوں نے کہاکہ حکمران خزانے کے امین ہوتے ہیں ان پر بدعنوانی کا الزام آئے تو سب سے پہلے انکا احتساب ہونا چاہیے، پانامہ لیکس میں حکمران خاندان کے بچوں کے نام آئے ہیں اس لئے سب سے پہلے احتساب حکمران خاندان کا ہونا چاہیے بقیہ لوگوں کا احتساب رکنا نہیں چاہیے انکا احتساب بلا تاخیر نیب، ایف آئی اے اور ایف بی آر کرے، انہوں نے کہا کہ حکمران خاندان کے بچے کرامات اور معجزات والے تو نہیں ہیں، جن بچوں نے کم عمری میں دنیا کے ہر ملک میں جائیدادیں اور آف شور کمپنیاں بنا لیں؟ اگر بچے ہیں تو پھر بچوں والے کام کریں، اربوں کھربوں کیسے کما رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دولت جائز ہوتی تو کبھی بچوں کے نام منتقل نہ ہوتی۔
تبصرہ