دہشت گردوں کی قوت اور طاقت کو توڑے بغیر ان سے مذاکرات کرنا قرآن اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مطابق نہیں
میٹروبس جیسے منصوبے ان ممالک میں ہوتے ہیں جہاں عوام کو بنیادی
ضروریات میسرہوں۔ عمرریاض عباسی
عوام کی سہولت کے لئے آٹا، گھی، چاول، چائے، دالیں اور سبزیوںکی قیمتوںمیں 50 فیصد
کمی کی جائے
بزنس لون سکیم کے ذریعے نوجوانوں کو سود جیسی لعنت میں جکڑاجارہا ہے
پاکستان عوامی تحریک کے ڈپٹی سیکرٹری اطلاعات عمرریاض عباسی نے کہا ہے کہ میٹرو بس سروس منصوبے ان ممالک میں لائے جاتے ہیں جہاں عوام کو بنیادی ضروریات زندگی بآسانی میسر ہوں، عوام کو صحت، تعلیم، انصاف ا ن کی دہلیز پر ملتاہو۔ پاکستان کے حکمران عوام کو بھوک، افلاس، غربت، مہنگائی سے نجات دلانے کی بجائے اپنے بزنس کو تقویت دینے کے لئے مند پسند منصوبے بنا کر عوام کو بیوقوف اور منظور نظرافر اد کو نوازنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ ان خیالات کااظہار انہوں نے گزشتہ روز منہاج القرآن یوتھ لیگ کی عوام رابطہ مہم کے دوران MYL کے صدر جاوید اصغر ججہ اور دیگر سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ بزنس لون سکیم کے ذریعے نوجوانوں کو سود جیسی لعنت میں جکڑاجارہا ہے، حکمران برسر اقتدار آنے کے بعد انتخابی وعدوںکو بھول کر اقتدار کے نشے میں بدمست ہوکر ایک بار پھر ناکام ثابت ہوچکے ہیں۔ انہوںنے کہا کہ حکومت طالبان کے ساتھ مذا کرات یا آپریشن کسی پر فیصلہ کرنے کی نہ جرات رکھتی ہے نہ ہی صلاحیت، پہلے آپریشن کی با ت کی گئی اور پھر اچانک مذاکرات کا فیصلہ کن طاقتوں کو خوش کرنے کے لئے کیاگیا۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر طاہرالقادری اور پاکستان عوامی تحریک کاموقف دو ٹوک ہے کہ دہشت گردوں کی قوت اور طاقت کو توڑے بغیر ان سے مذاکرات کرنا قرآن اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مطابق نہیں ہے۔ بدقسمتی سے حکمرانوں اور سیاسی لیڈروں نے اللہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کے مطابق یہ اسوہ اپنایا ہی نہیں۔ اگر دہشت گردوں سے مذاکرات کرنے ہیں تو پھر چوروں، ڈاکوئوں، قاتلوں کو جیلوں میں کیوں ڈال رکھا ہے؟ ان پر مقدمات کیوں چل رہے ہیں، ان سے بھی مذاکرات کئے جائیں۔ قانون اور عدالتیں ختم کر دی جائیں اور ہر معاملہ مذاکرات کے ذریعے طے کیا جائے، مذاکرات کرنا جائز ہیں مگر انکے لئے ایک طریقہ اور وقت ہوتا ہے۔ پہلے ڈاکو، چور، جارح اور باغیوں کی قوت کو توڑا جائے، وہ ریاست کی رٹ کو تسلیم کریں۔ انہوں نے کہا کہ اگر برابری کی بنیاد پر دہشت گردوں سے مذاکرات کرے تو یہ حکومت کی نا اہلی ہو گی، ہونا تو یہ چاہئیے کہ دہشت گرد پہلے ہتھیار پھینکیں، پر امن راستہ اختیار کریں اور اگر وہ پھر مذاکرات کی شکل میں کوئی مطالبات رکھیں تو حکومت کی ذمہ داری ہے کہ انکی بات سنی جائے۔


تبصرہ