گوشہ درود کی ماہانہ مجلس ختم الصلوٰۃ علی النبی (ص) - اگست 2008ء
تحریک منہاج کے گوشہ درود کی ماہانہ مجلس ختم الصلوٰۃ علی النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ماہ اگست کا پروگرام 7 اگست کو منعقد ہوا۔ اس کا انعقاد گوشہ درود کے نو تعمیر شدہ ہال میں کیا گیا۔ امیر تحریک صاحبزادہ مسکین فیض الرحمن درانی نے اس پروگرام کی صدرات کی۔ قائمقام ناظم اعلیٰ شیخ زاہد فیاض، ناظم امور خارجہ جی ایم ملک، ناظم پنجاب احمد نواز انجم، گوشہ درود کے حاجی محمد ریاض، حاجی محمد سلیم قادری، مفتی عبدالقیوم خان ہزاروی، پروفیسر محمد نواز ظفر، ناظم سیکرٹریٹ عبدالواحد بٹ، ناظم مالیات جاوید اقبال قادری، صدر منہاج القرآن علماء کونسل علامہ محمد حسین آزاد، علامہ فرحت حسین شاہ اور دیگر تحریکی قائدین بھی معزز مہمانوں میں شامل تھے۔ ان کے علاوہ منہاج القرآن ویمن لیگ کی مرکزی عہدیداران سمیت خواتین و حضرات کی بڑی تعداد بھی اس پروگرام میں شریک تھی۔
شب ساڑھے دس بجے نماز مغرب کے بعد قاری اللہ بخش نقشبندی نے تلاوت کلام پاک سے مجلس کی کارروائی کا باقاعدہ آغاز کیا۔ اس کے بعد نعت خوانی کا سلسلہ شروع ہوا۔ اس میں کالج آف شریعہ کے شہزاد برادران، منہاج نعت کونسل کے بلالی برادران، شکیل احمد طاہر اور محمد افضل نوشاہی نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں ہدیہ نعت پیش کیا۔ نعت خوانی کا سلسلہ شب بارہ بجے تک جاری رہا۔ اس دوران محمد افضل نوشاہی نے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کا عارفانہ کلام اور گوشہ درود کا درود پاک اپنے مخصوص انداز میں پڑھا۔ جس پر حاضرین نے جھوم جھوم کر اپنے جذبات کا اظہار کیا۔
امیر پنجاب احمد نواز انجم نے گوشہ درود کی رپورٹ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ ماہ جولائی میں گوشہ درود کے پڑھے جانے والے درود پاک کی تعداد 18 کروڑ 78 لاکھ 65 ہزار 155 ہے۔ اس کے ساتھ گوشہ درود کے مجموعی درود پاک کی تعداد 5 ارب 33 کروڑ 66 لاکھ 75 ہزار اور 8 سو ہو گئی ہے۔ اس کے علاوہ گوشہ درود میں گزشتہ ماہ 1,175 مرتبہ قرآن پاک کا بھی ختم کیا گیا۔ احمد نواز انجم نے کہا کہ حرمین شریفین کے بعد گوشہ درود دنیا کی واحد جگہ ہے جہاں فرض نمازوں کے وقفہ کے علاوہ سال بھر ہر پل درود پاک پڑھا جاتا ہے۔ الحمد للہ یہ اعزاز تحریک منہاج القرآن کے پاس ہے جس پر ہم سب کو فخر ہے۔
شب سوا بارہ بجے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا بیرون ملک سے ٹیلی فونک خطاب شروع ہوا۔ اس موقع پر آپ نے صلوٰۃ کا مفہوم سمجھاتے ہوئے کہا کہ کوئی نماز سورۃ فاتحہ کے بغیر کامل نہیں ہوتی اور امام کے خلف بھی جب ہم امامت میں نماز پڑھ رہے ہوتے ہیں تو امام کی اتباع کر رہے ہوتے ہیں۔ سورہ فاتحہ کو نماز میں مرکزی حیثیت حاصل ہے۔
طلب یعنی مانگنے کے لیے صدق ہونا چاہیے۔ اللہ کی بارگاہ میں اگر طلب صادق ہو گی تو پھر عمل اس قدر ہی کامل ہوگا۔ ہماری طبیعتوں کا اللہ تعالیٰ کی طرف دھیان ہونا چاہیے۔ جو لوگ خدمت دین کا کام کر رہے ہیں تو اس کے قلب و باطن کا رجوع اللہ کی طرف رہنا چاہیے۔ جس بندے میں اللہ کی طرف رجوع رہے گا تو اس میں عاجزی رہے گی اور غرور و تکبر نہیں آئے گا۔ خشوع و خضوع پیدا ہوگا۔ رجوع اور خشوع و خضوع بندے کی طلب کو صادق کرتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہم دین کا کام تو کرتے ہیں، دین کی خدمت کر رہے ہوتے ہیں لیکن ہمارے اندر عاجزی، رجوع اور خشوع و خضوع کی کمی ہوتی ہے۔ رجوع اور خشوع و خضوع بندے کی نیت کو خالص کرتا ہے۔ آقا علیہ السلام نے فرمایا کہ مومن کی نیت اس کے عمل سے زیادہ ہوتی ہے۔ عمل قلیل اور نیت کثیر ہونا مومن کی نشانی ہے۔ جن کی نیت اعلیٰ ہو جاتی ہے تو ان کا عمل بالا ہو جاتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام کو فرمایا کہ اگر تم ایک دانہ بھی اللہ کی بارگاہ میں خرچ کرو تو بعد میں آنے والے لوگوں کے مقابلے میں اس کا درجہ احد پہاڑ کے برابر ہوگا۔ بعد میں آنے والوں کے لیے اس ایک دانے کا ثواب ایک دانہ ہی رہے گا لیکن صحابہ کرام کو یہ فضیلت کیوں دی گئی کہ ان کی نیت میں خشوع و خضوع تھا۔
جب تک دنیا میں ایٹم بم ناقابل تقسیم تھا تو اس نے دنیا کو تباہ کر دیا۔ اب جب اس کی آگے تقسیم شروع ہوئی تو یہ طاقت دنیا کے ہر ملک کے پاس آتی جارہی ہے۔ نتیجہ کیا ہوا کہ یہ ساری دنیا میں پھیل گیا ہے۔ یعنی اس کا جوہر کم ہو گیا ہے۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ شیطان تو گمراہ ضرور کریگا لیکن جو خالص میرے بندے ہوں گے وہ تیرے دھوکے میں نہیں آئیں گے۔ یہی لوگ مخلصین لہ الدین ہیں۔ بندہ ہر نماز میں اللہ سے دعا کرتا ہے کہ اے اللہ ہمیں سیدھی راہ دکھا۔ یہ سیدھی راہ یہی ہے کہ ہم اپنی طبیعت میں عاجزی، خشوع و خضوع پیدا کریں۔
اس موقع پر آپ نے تحریک منہاج القرآن کے کارکنان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کارکنان اپنے اندر عاجزی اور انکساری پیدا کریں۔ یہ عمل ہماری زندگیوں میں نکل گیا ہے۔ جس کے بعد ہم ذرا ذرا سی بات پر جھگڑ رہے ہیں۔ ذرا سی بات پر غصہ کر جاتے ہیں۔ ایسا کرنا اللہ کے صالحین کی نشانی نہیں ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ہدایت حاصل کرنے کے لیے اپنے اندر عاجزی و انکساری کو پیدا کریں۔ اگر یہ حسد، اکھڑ پن اور غصے جیسا عمل ہماری زندگی سے نکل جائے تو پھر یہ دعا مانگی جائے کہ اے اللہ ہمیں ہدایت دے۔ اللہ رب العزت نے فرمایا کہ اگر ہدایت مانگو تو خالصیت کے ساتھ مانگو۔ سورۃ فاتحہ میں بندے کا اللہ سے ہدایت طلب کرنے کا بیان کیا ہے۔ لیکن ہم شاید اس کے خواہش مند ہی نہیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر تم گمراہی اور بدبختی سے بچنا چاہتے ہو تو میرے انعام یافتہ بندوں کے نقش قدم پر چلو۔
قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں تو انہیں اللہ تعالیٰ اپنے انعام یافتہ بندوں کی معیت عطا کر دیتا ہے۔ اللہ انہیں اپنے انعام یافتہ بندوں میں شامل کرنے کے بعد پھر ان کو بھی اپنے انعام یافتہ بندے بنا لیتا ہے۔ اس لیے آپ بھی اللہ کے انعام یافتہ بندوں کی سنگت مانگو۔ اللہ کے انعام یافتہ لوگ کون ہیں۔ ان میں صلحاء، اولیاء، قبار اولیاء شامل ہے۔ قبار اولیاء صدیقیت کے درجے پر فائز ہیں جن کی پوری زندگی توحید و رسالت کے پرچار، اسلام کے فروغ و اشاعت کے لیے صرف ہوئی۔ ان لوگوں کی نشانی یہ ہے کہ ان کا جینا مرنا اللہ کے لیے ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں کو انبیاء، صدیقین، شہداء، کاملین، صلحاء اور اللہ کے دیگر نیک برگزیدہ لوگوں کی سنگت دیدی جائے گی۔
شب ایک بجے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کا خطاب ختم ہوا۔ اس کے بعد امیر تحریک مسکین فیض الرحمن درانی نے اختتامی دعا کروائی۔ پروگرام کی کمپئرنگ کے فرائض شریعہ کالج کے وقاص احمد قادری نے اد کیے۔ دعا میں ملکی سلامتی و ترقی کے لیے بھی خصوصی دعائیں کی گئیں۔ آخر میں معزز شرکاء اور مہمانوں کے لیے گوشہ درود کا لنگر بھی تقسیم کیا گیا۔
تبصرہ